کیا عصر یا مغرب کے بعد گھر میں جھاڑو لگانا توہم پرستی ہے
آ ج مسلمان کہلانے والوں میں سے بہت سےلوگوں کا نہایت مہلک اور بدترین عیب توہم پرستی میں مبتلا ہونا ہے عا م طور پر کچھ لوگ جو کمزور عقیدے کے حامل اور ذہنی طور پر پسماندہ ہوتے ہیں
اس لئے وہ حالات سے بہت جلد دل برداشتہ ہوجاتے ہیں اگر ان کی مرضی کے مطابق کوئی کام نہ ہو تودل چھوڑ بیٹھتے ہیں اور درپیش معاملے کو عقل و شعور کی روشنی میں جانچنے پرکھنے کی بجائے مختلف قسم کے توہمات کا شکار ہوجاتے ہیں
اگرچہ اسلام ہمیشہ تحقیق اور غوروفکر کی دعوت دیتا ہے اور اس لئے توہم پرستی یا بدشگونی کی قطعا گنجائش نہیں مگر اس کے باوجود مسلمانوں کی کثیر تعداد اس مرض کا شکار ہے۔ مسلمانوں میں توہم پرستی کی وجہ ایک تو کم علمی اور دینی احکام سے ناواقفیت ہے اور دوسری بڑی وجہ
برصغیر میں ہندوؤں کے ساتھ رہنا ہے جن میں توہم پرستی حد درجہ عام ہے جیسے کہ نومولود کو نظربد سے بچانے کے لئے پیشانی پر کاجل کا ٹیکہ یا نیشان لگانا عصر یا مغرب کے وقت گھر میں جھاڑو لگانا مرد کی دائیں اور عورت کی بائیں آنکھ پھڑکنے کو اچھی خبر کی آمد مشروط کرنا ٹانگیں ہلانے سے دولت کا جانا۔قبل از اسلام بھی لوگ توہم پرستی کا شکار تھے۔
عرب کے لوگ بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھتے، گھروں میں دروازے کے بجائے پچھلی دیوار توڑ کر گھر میں داخل ہونے کو باعثِ برکت سمجھتے۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم رضی علیہ وسلم کی وفات کے دن سورج گرہن تھا
۔ کچھ لوگوں نے آپ رضی اللہ کی وفات کی وجہ سورج گرہن کو سمجھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا خیال کرنے سے منع فرما دیا۔دیکھا جائے تو توہمات پر یقین رکھنا ہی تقدیر پر یقین کا رد ہے۔ کوئی دن، پتھر، بشر، چرند پرند یا ستارے وغیرہ انسان کے نفع و نقصان کے خَالِق نہیں ہوسکتے سوائے اللہ کے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے اگر تجھے کوئی فائدہ پہنچے تو وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی (شامت اعمال) کی بدولت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی چیز سے بد فعالی پکڑ کر اپنے کام سے پیچھے ہٹ گیا تو اس نے شرک کیا۔حضرت ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی بیماری متعدی نہیں اور نہ بد شگونی کی کچھ اصل ہے، اور نہ الو میں نحوست ہے اور نہ صفر کی نحوست کی کوئی بنیاد ہے عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بد شگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے ۔( آپ نے تین مرتبہ فرمایا) اور ہم میں سے ہر ایک کو (کوئی نا کوئی وہم) ہو جاتا ہے
لیکن اللہ تعالیٰ توکل کی برکت سے اسے دور کر دیتا ہے اسی طرح تعویز کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس نے تعویز لٹکایا بلاشبہ اس نے شرک کیاجہاں تک دم یا جھاڑ پھونک کی بات ہے تو مسنون دعاوں سے دم کرنا جائز ہے بشرطیکہ شرکیہ کلام نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دم (جھاڑ پھونک ) میں کوئی حرج نہیں
جبکہ اس میں شرکیہ کلمات نہ ہوں کچھ لوگ توہمات پر دلیل کرتے ہیں۔کہ اگر یہ جہالت ہے تو پھر فلاں کام بد شگونی سے خراب کیوں ہوگیا تو جواب یہ ہے کہ انسان جیسا گمان رکھتا ہے اس کے ساتھ پھر ویسا ہی ہونے لگتا ہے۔ جیسا کہ حدیث قدسی ہے کہ ”میں اپنے بندے کے گمان پر پورا اترتا ہوں جو شخص توہم پستی اور بدگمانی جیسے برے خیالات سے احتراز کرے
اس کے لیے نیک اجر ہے۔حدیث میں آتا ہے کہ میری امت کے 70ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے ۔یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کرواتے، بد شگونی نہیں لیتے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ایسے میں کسی بھی طرح سے توہم پرستی سے بچنا چاہیے
۔ یہ ایک طرح سے شرک اور اللہ پر بھروسہ نہ کرنے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان برائیوں سے محفوظ رکھے اور بے اثرات سے بھی بچا کر رکھے۔ آمین