رزق میں برکت اور کشادگی کا وظیفہ، رزق میں اللہ پاک خیر و برکت فرمائیں گے
یہاں تک کہ اس کی مغفرت ہو جائے، اور وہ ہے سورت ” تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ المُلْكُ”) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح سنن ترمذی میں حسن قرار دیاہے۔ ترمذی (2892) میں ہی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک نہیں سوتے تھے جب تک سورۃ سجدہ اور سورۃ الملک نہ پڑھ ، اس روایت کو بھی البانی نیچے ست پڑھیں۔ رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ ایسے ہی نسائی (10479) میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: (جو شخص سورۃ الملک ہر رات پڑھے تو
اللہ تعالی اس سے عذاب قبر کو روک لے گا،اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسے مانعہ [یعنی روکنے والی]کہتے تھے، اور یہ قرآن مجید میں ایک ایسی سورت ہے جو اسے ہر رات پڑھ لے تو وہ بہت زیادہ اور اچھا عمل کرتا ہے) اس حدیث کو بھی البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترغیب و ترہیب میں حسن کہا ہے۔ مقصود اور مطلوب یہاں پر حدیث سے ظاہر ہونے والا معنی ہے کہ یہ فضیلت اس شخص کے بارے میں ہے
جو یہ سورت پڑھتا ہے، تاہم اس بارے میں مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (26240) اور سوال نمبر: (191947) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔ لہذا پڑھنے کی بجائے صرف سننے والا شخص قاری یعنی اس سورت کی قراءت اور پڑھنے والا نہیں ہو سکتا،اگرچہ قرآن مجید کی تلاوت سننا ایک شرعی اور مطلوب عمل ہے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ صرف سننے والے کو بھی پڑھنے والے کے برابر اجر ملے گا،
ہمیں سننے اور پڑھنے والے- دونوں کے اجر میں برابری کی کوئی دلیل نہیں ملی۔ اس بنا پر جو شخص ان احادیث میں وارد فضیلت پانا چاہتا ہے تو وہ سورت پڑھے محض سننے پر اکتفا مت کرے۔ ور اگر وہ پڑھ نہیں سکتا، تاہم قاری کی آواز کے ساتھ ساتھ یا پیچھے پیچھے پڑھ سکتا ہے۔ کیونکہ اب تو ملٹی میڈیا کے
ذریعے ایسا ممکن ہے اور ریکارڈ شدہ تلاوتیں بھی موجود ہیں جس میں آپ ایک ہی آیت کو بار بار بھی سن سکتے ہیں ،تو اگر ایسا ممکن ہو تو یہ ان شاء اللہ اچھا ہو گا، اور اس طرح سن کر پڑھنے والا بھی قاری اور پڑھنے والوں میں شامل ہو جائے گا، بلکہ امید ہے کہ اتنی مشقت اٹھانے پر اسے اضافی اجر بھی ملے۔
اور اگر کسی کیلیے اس انداز سے پڑھنا بھی ممکن نہیں ہے یا انتہائی زیادہ مشکل پیش آتی ہے تو وہ حسب استطاعت سننے پر اکتفا کرتا ہے تو ہم امید کرتے ہیں کہ اسے پڑھنے والے کے اجر سے محروم نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی پڑھنے کے بدلے وارد فضائل سے محروم کیا جائے گا؛ کیونکہ اس نے اپنی بساط بھر کوشش کی ہے۔ انسان کی زندگی میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں
،اچھی اور بری تقدیر پر ایمان رکھنا مسلمان کیلئے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کی دنیا میں آزمائش کیلئے اس کے سامنے کئی امتحان رکھے وہیں ان امتحانات سے سرخرو ہونے کا طریقہ بھی بتایا۔ بیماری ہو یا کوئی اور مسئلہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی فرمائی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ نے دنیا میں کوئی ایسا مرض نہیں اتارا
جس کا علاج نہ اس کے ساتھ پیدا فرمایا ہو سوائے مرض الموت کے ہر مرض کی شفا رکھ دی گئی ہے۔ ہماری روز مرہ میں اتار چڑھائو معمول کا حصہ ہیں۔ معاشی پریشانیاں بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کو آزمانے کا سبب ہیںاچھی اور بری تقدیر پر ایمان رکھنا مسلمان کیلئے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کی دنیا میں آزمائش کیلئے اس کے سامنے کئی امتحان رکھے وہیں ان امتحانات سے سرخرو ہونے کا طریقہ بھی بتایا۔
بیماری ہو یا کوئی اور مسئلہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی فرمائی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ نے دنیا میں کوئی ایسا مرض نہیں اتارا جس کا علاج نہ اس کے ساتھ پیدا فرمایا ہو سوائے مرض الموت کے ہر مرض کی شفا رکھ دی گئی ہے۔ ہماری روز مرہ میں اتار چڑھائو معمول کا حصہ ہیں۔
معاشی پریشانیاں بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کو آزمانے کا سبب ہیںانشااللہ آپ کی دعا اللہ تعالیٰ کےہاں مقبول ٹھہرے گی۔ نوٹ: وظیفے کیلئے ہی صرف نماز نہ پڑھیں بلکہ پنج گانہ نماز کو اپنی عادت بنائیں۔ حضرت علیؓ کا قول مبارک ہے کہ جب میری خواہش ہوتی ہے کہ میں اپنے رب سے گفتگو کروں تو میں نماز پڑھتا ہوں اور جب میری یہ خواہش ہوتی ہے کہ
میرا رب مجھ سے گفتگو فرمائے تو میں تب بھی نماز پڑھتا ہوں۔ حدیث شریف کا مفہوم ہےکہ ایککافر اور مسلمان میں فرق صرف نماز کا ہے۔ نماز نہ صرف خود ادا کریں بلکہ گھر میں خواتین اور بچوں کو بھی اس کی تلقین کریں۔ نمازنہ صر