اذان کے دوران دوپٹہ نہ اوڑھیں تو کیا گھر پر کیا آتا ہے؟ جانیں
دین اسلام میں اذان کی بہت ہی زیادہ فضیلت ہے اذان شعائر دین میں سے ہے اذان کا احترام اذان سے محبت ہرمحبت کا ایمانی تقاضا ہے آذان دینے کی فضیلت حضرت معاویہ ؓ سے مروی حضور نبی اکرم ﷺ کی اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہے
:قیامت کے دن جب مؤذن اٹھیں گے تو ان کی گردنیں سب سے بلند ہوں گی اس کا مطلب ہے کہ میدان حشر میں جب تمام لوگ گرمیسے پسینے میں شرابو ر ہوں گے مؤذنوں کو کوئی پریشانی نہ ہوگی تب ان کی گردنیں بلند ہوں گی اس کا مطلب یہ
بھی ہے کہ مؤذن کی آذان سن کر لوگ مساجد میں نما ز پڑھنے جاتے ہیں۔ تو نماز ی تابع اور مؤذن متبوع ہوا اور متبوع چونکہ سردار ہوتا ہے اس لئے قیامت کے دن اس کی گردن بلند ہوگی تا کہ اس کا سر نمایاں نظر آئے ۔جہاں آذان دینے کی اتنی فضیلت ہے
وہیں اذان کا احترام نہ کرنے کی سخت ترین وعید اور سخت سزائیں بھی ہیں ان میں سے کچھ سزائیں تو اس دنیا میں ہی ہیں آج آذان کااحترام کرنے پر اس کا اجرو ثواب اور اس کو نا سننے پر اس کا عذا ب کیا ہے حضرت سیدنا علی ؓ کا اس بارے میں کیا فرمان ہے۔ ایک شخص ان کے پاس آکر اپنی پریشانیوں کا ذکر کرنے لگا تو سیدنا علی ؓ نے کیا فرمایا
اور اسی طرح اگر کوئی عورت بے پردہ ہوکر آذان سنے تو اس گھر پر کیا عذاب نازل ہوتا ہے اسی موضوع پر گفتگو پیش کی جارہی ہے۔اذان کی اہمیت اوراس کی فضیلت اور سننے کے فضائل و برکات کیا ہیں ؟حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ ہادی عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا تمہارا رب راضی ہوتا ہے۔
پہاڑ کی چوٹی پر بکریاں چرانے والے سے جو نماز کے لئے اذان دیتا ہے اور نماز پڑھتا ہے پس اللہ عزوجل ملائکہ مقربین سے فرماتے ہیں میرے اس بندے کی طرف دیکھو کہ یہ پابندی سے آذان دیتا ہے اور پابندی کے ساتھ نمازپڑھتا ہے اور مجھ سے ڈرتا ہے پس میں نے اپنے اس بندے کے گناہ بخش دیئے ہیں اور میں اس کو جنت میں داخل کروں گا ۔(ابوداؤد ،نسائی)یہ اجرو ثواب تو اس شخص کے لئے ہے
جو اذان دیتا ہے اور اس شخص کے لئے بھی بہت ہی زیادہ اجرو ثواب رکھا ہے جو جیسے ہی آذان کی آواز آئے اپنے سب کام کاج کو صرف اذان کے احترام میں چھوڑ دیتا ہے اورآذان سن کر آذان کے الفاظ دہراتا ہے حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جب مؤذن اللہ اکبر اللہ اکبر کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص یہی الفاظ دہرایا کرے پھر
جب مؤذن اشہد ان لا الہ الا اللہ کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص انہی الفاظ کو دہرائے پھر جب مؤذن اشہد ان محمد الرسول اللہ کہے تو تم میں سے بھی ہر شخص یہی الفاظ دہرائے پھر جب مؤذن حی علیالصلاہ کہے توتم میں سے ہر شخص لاحول ولا قوۃ الا باللہ کہہ کر اس کا جواب دے۔ پھر جب مؤذن حی علی الفلاح کہے تو تم میں سے ہر شخص لاحول ولا قوۃ الا باللہ سے اس کا جواب دے پھر جب مؤذن اللہ اکبر اللہ اکبر کہے
تو تم میں سے بھی ہر شخص یہی الفاظ دہرا کر اس کا جواب دے پھر جب مؤذن لاالہ الا اللہ کہے تو تم میں بھی ہر شخص انہی الفاظ سے اس کی تائید کرے۔پس جس نے آذان کے کلمات کے جواب میںیہ کلمات صدق دل سے کہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا ۔جہاں آذان سن کر اس کا جواب دینے کی اتنی فضیلت ہے وہیں آذان کا احترام نہ کرنے پر بھی سخت ترین وعیدیں بھی ہیں جو شخص آذان کی آواز سن کر
اپنے کام کا ج میں مصروف رہتا ہے آذان کو نظر انداز کردیتا ہے اور اپنے کام کاج نہیں چھوڑتا اس شخص کے کاروبار میں برکت اللہ پاک اٹھا لیتے ہیں حضرت علی ؓ کے پاسایک تاجر آکر اپنی بے برکتی کا ذکر کرنے لگا۔ تو آپ نے فرمایا تم آذان کے وقت اپنے کام کاج کو ختم کر کے احترام آذان میں بند کردیتے ہو یا خاموش ہوجاتے ہو تو وہ کہنے لگا نہی
آپ نے فرمایا آذان کا احترام کرو پھر دیکھنا کاروبار میں کیسی برکت ہونا شروع ہوجائے گی۔اسی طرح ہماری جو بہنیں آذان کی آواز سن کر اپنے سر پر دوپٹہ نہیں اوڑھتی ان پر اللہ کی لعنت برستی رہتی ہے پھر جس پر اللہ کی لعنت بر سےبھلا اس گھر میں رحمت آسکتی ہے کیسے وہ گھر خوشحال ہوسکتا ہے کیسے اس گھر میں سکون آسکتا ہے جو آذان کا احترام نہ کرتا
ہو یہاں آذان کا ذکر ہورہا ہے تو یہ واقعہ بھی پڑھ لیجئے سندھ کے ایک گاؤں سے تبلیغی جماعت کا گذر ہوا تو پتہ چلا کہ یہاں کے لوگ بے دین ہیں انہیں کلمہ تک نہیں آتا حلال و حرام کی تمیز نہیں خدا رسول کا نام نہیں سنا ان اللہ کے بندوں نے انہیں دین کیاصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ اس کی عادت تھی کہ وہ کبھی بھی آذان کی آواز میں بیت الخلا نہیں جاتی تھی شدید حاجت بھی ہوتی تو ادب کی خاطر انتظار کرلیتی تھی
اس حالت میں آذان کی آواز کانوں میں نہ آئے آج ہمارے مسلم معاشرے کی حالت یہ ہے کہ گھروں میں بڑوں سے چھوٹوں تک کوئی اکا دکا ہو جو آذان کے لفظوں کا ادب کرتا ہو اسے معلوم ہو کہ آذان میں مؤذن رسول اللہ ﷺ نے کیا کہاہے۔دعوت دینے کا سوچا اور وہاں پہنچ گئے۔ گاؤں والوں نے اس شرط پر بات سننے کی حامی بھری کہ ہمارے ہاں ایک خاتون کا انتقال ہوگیا ہے لہٰذا اسے سپرد خاک کریں جماعت والوں نے کفن دفن کا ضروری انتظام کیا جنازہ پڑھا
ایک جگہ کو قبرستان کا نام دے کر خاتون کی تدفین کر دی گئی ۔دوران تدفین جماعت کے ایک ساتھی کے ضروری کاغذات قبر میں گر گئے کاغذات اہم تھے اس لئے قبر کشائی کا فیصلہ ہوا اسصورتحا ل میں میت کے گھر والوں سے اجازت لی گئی ان کی اجازت سے قبر کو کھولا گیا تو دیکھتے ہیں کہ قبر روشن اور نور سے پر ہے ہر طرف پھول بکھرے پڑے ہیں میت کا پورا جسم گلاب کی پتیوں سے ڈھکا ہوا ہے ایک سرخ گلاب میت کے ہونٹوں پر رکھا ہے جس سے قطرہ قطرہ پانی میت کے حلق میں جارہا ہے
قبر کھلتے ہی ہر طرف خوشبو پھیلنے لگی لہذا جلدی قبر کوبند کر دیا گیا۔ کیونکہ ایسے معاملات اللہ اور بندے کے درمیان راز ہوتے ہیں میت کے گھر والوں کو اس عظیم نعمت کی خوشخبری سنائی گئی اور ساتھ ہی اس کی وجہ بھی پوچھی گئی خاتون کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ ہم نے کبھی اسے کوئی نیک عمل کرتے نہیں دیکھا ہاں ایک چیز جو وہ اکثر کیا کرتی تھی اور جسے ہم نے اسے ساری زندگی اس ایک عمل کو کرتے دیکھا جماعت والوں نے اس عمل کے بتانے کااصرار کیا تو انہوں نے کہا کہ اس کی عادت تھی کہ
وہ کبھی بھی آذان کی آواز میں بیت الخلا نہیں جاتی تھی شدید حاجت بھی ہوتی تو ادب کی خاطر انتظار کرلیتی تھی اس حالت میں آذان کی آواز کانوں میں نہ آئے آج ہمارے مسلم معاشرے کی حالت یہ ہے کہ گھروں میں بڑوں سے چھوٹوں تک کوئی اکا دکا ہو جو آذان کے لفظوں کا ادب کرتا ہو اسے معلوم ہو کہ آذان میں مؤذن رسول اللہ ﷺ نے کیا کہاہے۔