کیا ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کی آزادی دلوا سکتے ہیں
مقابلہ متوقع ہے لیکن اس انتخاب کا انتظار صرف امریکی عوام ہی نہیں کر رہی بلکہ دنیا بھر کے دیگر ممالک بھی اس بات کے منتظر ہیں کہ آخر وائٹ ہاؤس کا اگلا مکین کون ہوگا؟
پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے ہی اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں لیکن پھر بھی یہاں ہمیشہ ہی امریکی صدارتی انتخاب کو انتہائی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس بار بھی پاکستانی رہنماؤں کی نگاہیں امریکی الیکشن پر جمی ہوئی ہیں اور خصوصاً سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اس میں گہری دلچسپی لیتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
عمران خان نے بطور وزیرِ اعظم وائٹ ہاؤس کا دورہ سنہ 2019 میں کیا تھا اور اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر تھے۔ کیمروں کے سامنے دونوں رہنماؤں کی ملاقات انتہائی خوشگوار رہی تھی۔
اس ملاقات کے دوران اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کے سامنے عمران خان کو ’میرے اچھے دوست‘ کہہ کر بھی مخاطب کیا تھا۔
سنہ 2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی صدارتی انتخاب میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور جو بائیڈن امریکی صدر بن گئے۔ ان کے صدر بننے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک بار پھر سردمہری نظر آئی اور عمران خان اور بائیڈن کے درمیان کوئی ٹیلیفونک رابطہ تک نہیں ہوا۔
پھر سنہ2022 میں عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں وزیرِ اعظم ہاؤس چھوڑنا پڑا اور انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت گِرانے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا۔
لیکن بعد میں ان کے بیانات میں تبدیلی اس وقت نظر آئی جب انھوں نے اس وقت کے فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ کو حکومت گِرانے کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا۔
سابق وزیرِاعظم گذشتہ برس اگست سے متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور تاحال راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
پی ٹی آئی کے کچھ رہنما شاید سمجھتے ہیں کہ امریکی صدارتی انتخاب کے بعد ان کی جماعت کے سربراہ کی مشکلات شاید کچھ کم ہوجائیں۔
عمران خان کی جماعت کے چند رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر امریکہ کے صدر منتخب ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے ’اچھے دوست‘ عمران خان کو رہائی دلوا دیں گے۔