پہلی بار لگا کہ میری بھی کسی کو ضرورت ہے میں صرف فضول نہیں ہوں

میر انام عالیہ ہے میں 7 سال کی تھی جب میری ماں کا انتقال ہو گیا تو میرے ابو نے جلدی دوسری شادی کر لی میری سوتیلی ماں سارادن مجھ سے گھر کے کام کر واتے تھی اور کھانے کے لیے رو کی

سوکھی روٹی دے دیتی میں کمزور تھی لیکن پھر بھی بہت خوبصورت تھی جب میری سوتیلی ماں کی اولاد ہوئی تو وہ مجھ سے اور زیادہ بیزار ہو گئی میرے باپ کو بیوی کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا تھاسارادن گھر سے باہر کام کرتا اور ساری ساری رات اپنی بیوی کو بند کمرے میں لے کر سو یار ہتا تھا اس نے بھی میری پر واہ نہیں کی وقت گزرتار ہامیں 14 سال کی ہو گئیں ایک دن میری سوتیلی ماں اورباپ کو

کچھ ایسی باتیں کرتے ہوۓ سنا کہ میرے کان کھڑے ہو گئے میں چپ کر ان کی باتیں سننے لگی میری سوتیلی ماں میرے باپ سے کہہ رہی تھی کہ اب عالیہ جوان ہو چکی ہے اس کی شادی جلد از جلد کر دی جائے تو بہتر ہے کیا پتاوہ کسی کے ساتھ منہ کالا کر لے اور ہم کسی کو منہ دکھانے کے لائق نہار ہے اگرچہ زیادہ پڑھی لکھی سمجھدار تو نہیں تھی لیکن باتوں کا مطلب جانتی تھی اس دن مجھے اپنی ماں شدت سے یاد آئی میں بہت دیر تک مجھے

اپنے باپ سے اچھی امید تو پہلے بھی نہیں تھی اس نے اپنی بیوی کی ہاں میں ہاں ملادے اور ایک مہینے بعد میری شادی کر دی میراشوہر تیس سال ہٹا کٹاجوان تھااورمیں 15 سال کی معصوم اور کمزور لڑ کی کیونکہ میں شروع سے ہی ظلم وزیادتی بر داشت کرنے کی عادی اس لئے سسرال جاکر مجھے کچھ خاص فرق محسوس نہ ہوامیری ساس ہمارے گھر پر روپ تھا اور میراشوہر اپنی ماں سے بہت ڈرتا تھارات کو کمرے دروازہ کا کھول کر سوتا تھا اور

جلدی میری قریب ہی نہیں آتا تھا ایک دن مت کر کے کمرے کا در وازہ اندر سے بند کر لیا میں بہت خوش ہوئی کہ آج مجھے میر احق ضرور دے گالیکن تھوڑی دیر بعد ہی دروازے پر زور زور سے دس تک ہونے لگی اٹھ کر دروازہ کھولا تو میری ساس باہر کھڑی تھی چلارہی تھی کے شوہر سے کہہ رہی تھی کہ تم کو شرم نہیںآتی جوان بہنیں ہیں تم بیوی کو کمرے میں بند کر کے گھر میں بے حیائی پھیلاتے ہوان معصوم کے ذہن پر کیا اثر پڑے گا

میراشوہر بچار اپناسامنہ لے کے رہ گیا ہمیشہ کی طرح میں اس رات بھی بندے ہی رہ گئی میری شادی کو دو مہینے بھی چکے تھے لیکن میں ابھی تک ہماری تھی اور مجھ سے نظر نہیں ملاتا تھا ایک دن میرے پاس آیا اور کہنے لگا کے عالیہ میں تم سے بہت شرمندہ ہوں اصل بات یہ ہے کہ میں شروع سے ہی نامر دمیری ماں کو اچھی طرح پتا ہے اس لیے وہ عزت رکھنے کے عزت رکھنے کے لئے کوئی نہیں بہانہ بناتے ہیں کہ میں کہ میں تمہارے قریب نہ جاؤ نہ جاسکوں میرا یہ بھید تم سے چھپارہا ہے دن بھر میں اپنی قسمت پر بہت روۓ

میں اگلے روز اپنی ساس کے پاس گئی اور کہا کہ جب آپ کو پتہ تھا کہ آپ کا بیٹا شادی کے لائق نہیں ہے تو آپ نے کیوں اس کی شادی کر کے میری زندگی بر باد کی میری ساس رونے لگ پڑی اور میرے آگے ہاتھ جوڑ کر کہنے لگیں کہ بیٹی مجھے معاف کر دو کے دونوں بیٹیاں اگلی گھر چلی جائیں گی میرا ایک بیٹا ہے میں چاہتی تھی کہ ہم ماں بیٹی کو زندگی جینے اور سنبھالنے کا کوئی سہارامل جاۓ جو ہم ماں بیٹے کو پکا کر کھلائی اور سہار اپنے اس لیے

میں نے نہ چاہتے ہوئے اپنے بیٹے کی شادی کر دی میری پیاری بیٹی اب کبھی ہم کو چھوڑ کر مت جانامیری ساس میرےسامنے روۓ جار ہے تھے میرادل ایک دم سے بھر آیا مجھے پہلی بار لگا کہ میری بھی کسی کو ضرورت ہے میں صرف فضول نہیں ہوں بلکہ میں بھی کسی کاسہاراہوں نے اٹھی اور اپنی روتی ہوئی ساس کو گلے لگالیا مجھے میری

مرحوم ماں یاد آگئی اور میں پھوٹ پھوٹ کر روپڑے اس دن کے بعد مجھ میری ماں اور میرے شوہر کو سہارامل گیامیری نیند کی شادی ہوئی تو اس نے اپنا پہلا بچہ میری گود میں ڈال دی تو میری ادھوری زندگی کی کسی حد تیک مکمل ہو گی

Comments are closed.