جب اسم اللہ وجود میں تاثیر کرتا ہے تو اس پر رنگ معرفت چڑھتا ہے اور وہ کمال پر پہنچ جاتا ہے
عشق کی چھت بہت بلند ہے اس پر پہنچنے کےلیے اسم اللہ ذات کی سیڑھی استعمال کر جو تجھے ہر منزل و ہر مقام بلکہ لامکان پہنچا دے گی۔ اسم اللہ اعظم واسم اللہ نفع دیتا ہے۔ اور نہ تاثیر کرتا ہے۔ جب تک کہ وجود معظم اور دل سلیم ومکرم نہ ہو۔
تصور اسم اللہ ذات صاحب تصور کے قلب و قالب کو اس طرح زندہ کرتا ہے۔ جس طرح کہ باران رحمت خشک گھاس وخشک زمین کو زندہ کرتی ہے۔اور زمین سے سبزہ اگ آتا ہے۔ یقین نماز، روزہ اور سجدہ ریزی میں پایا جاتا ہے کہ سجدہ ریزی ایسا عمل ہے۔ کہ جس سے یا ذات الہیٰ قائم رہتی ہے۔ تماز معراج ہے کہ اس میں دیدار خدا ہے۔ جب دل کے حواس کھلتے ہیں
۔ تو ظاہر ی نفسانی وجود کے حواس خمسہ بند ہو جاتے ہیں۔ کیو نکہ چشم باطن تودل ہے۔ ہر آواز تیرے اندر سے آتی ہے۔ البتہ اس آواز کو سمجھتا کوئی اہل راز ہی ہے۔ جو نفس رات دن پیر ومرشد کے سامنے حکایات شکایات میں مصروف رہتاہے پیر ومرشد اس اہل نفس طالب کو حکایات شکایات سے نکال کر لا نہایت میں پہنچا دیتا ہے۔ نفس جب اس مقام نور پر پہنچتا ہے۔
تو صد شکر بجا لاتا ہے۔ طرح طرح کی نعمتیں اور کھانے کھاتا ہے۔ شیریں دودھ اور شہد پیتا ہے۔ اور تن پر اطلس کا زریں لباس پہنتا ہے۔ تو اس پر تعجب مت کر کہ وہ ظاہر باطن میں عاقل و ہوشیار ہوتا ہے۔الہیٰ ! مجھے لذت دیدار بخش اور میرے دل پر لذت دیدار کا نزول فرما۔تجھے جو کچھ چاہیے اسم اللہ ذات سے حاصل کر۔ صرف اسم ذات ہی نے آخر تک تیرا ساتھ نبھانا ہے۔
جب اسم اللہ ذات طالب اللہ کے وجود میں تاثیر کرتا ہے۔ تو اس پر رنگ معرفت چڑھتا ہے ۔ اور وہ مرتبہ کمال پر پہنچ جاتا ہے۔ اس کے وجود سے دوری مٹ جاتی ہے۔ اور وہ اپنی مراد پا لیتا ہے۔ اپنے دل کو نجاست خطرات سے پاک کر لے تاکہ تجھے وحدت حق مل جائے۔ تو نہیں جانتا کہ اللہ تیرے بہت قریب ہے لیکن تیر انفس ہی تیرا رقیب ہے۔ جو تیری راہ مارنے پر تلا ہوا ہے
۔ جس نے خواب میں گھوڑا اور اونٹ یہ دو چیزیں دیکھ لی تو سمجھ لیں وہ دولت مند ہونے والا ہے۔ الہیٰ ! تو کسی کو عاجز کرکے دربدر کا سوالی نہ بنا کہ تیر ا وصال مال وزر سے کہیں بہتر ہے