یہ ہماری مجبوریاں ہی ہیں جو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کے رکھتی ہیں
یہ جو مجبوریاں ہوتی ہیں نہ یہی ہمیں ایک دوسرے سے جوڑ کر رکھتی ہیں مجبوریوں سے آزادی تو ہمیں ایک دوسرے کا ہی دشمن بنا دیتی ہے۔ ہم بغاو ت میں اپنے ماں باپ کو بھی چھوڑنے سے نہیں ڈرتے
تو کسی ایرے غیرے کی کیا مجال ہے کہ وہ ہماری مرضی کے خلاف ہمارے ساتھ رہ سکے یا ہم اسے اپنے ساتھ رکھ سکے محرموں کو بھی ہم اس لیے برداشت کرتے ہیں کہ ان کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہوتا اور جس دن ہمارا گزارا ہونے لگتا ہے۔
محبت تو ہوتی ہی محر م سے ہے نامحرم سے تو وقتی طور پر لگاؤ ہوتا ہے وہ بھی اچھائی کے قائم رہنے تک جیسے ہی برائی سامنے آتی ہے ۔ نمبر بلاک پھر توں کون میں کون، سب ختم لیکن محر م کے ساتھ ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی رہنا پڑتا ہے اچھائی برائی کے باوجود بھی ساتھ نبھانا پڑتا ہے۔معاف ہم انہیں بھی نہیں کرتے ،
یہ محبت! محبت کی دعویدداریاں بس اچھائی تک ہی قائم رہتی ہیں۔ جب تک ہم دوسروں کی سہی غلط باتیں برداشت کرتے رہیں ہم اچھے ، جس دن بھڑکے ہم برے ، جب تک دوسروں کا مطلب پور ا کرتے رہیں تب تک ہمیں شہنشاہ کہاجاتا ہے جس دن جواب دے دیں ہمیں کم ظرف کا خطاب مل جاتاہے۔
بے لوث تو ہم پیدا کرنے والے خالق سے بھی نہیں ہوتے ہیں او ر کسی سے کیا ہوں گے جبکہ محبت بے لوث جذبہ ہے مجھے تویہ بے لوثی آج تک کہیں نظر نہیں آئی ۔آپ کو کہیں نظرآئی ہے تو ضرور بتانا۔عورت ایک منافق مخلوق ہے اور مرد ایک سچا انسان ہے
بہت سے لوگوں کو مجھ سے اختلاف ہوسکتا ہے ۔ پر میں نے عورت سے بڑھ کر کسی کو منافق نہیں پایا۔ حد درجہ منافق ہوتی ہے۔ دل میں کچھ اورہوتا ہے اور زبان سے کچھ اور بولتی ہے۔