گاوں کی پنچائت نے مولوی صاحب سے امامت واپس لے لی
اس دنیا میں شریف انسان کی کوئی عزت نہیں جو انسان جتنا زیادہ شریف ہوتا ہے لوگ اس کو پر اتنا ہی نہیں دباؤ ڈالتے ہیں اور یہ کوشش کرتے ہیں
یہ کہ ہمیشہ ان کے قابو میں رہے اور اس کی عزت نفس کے ساتھ کھیلتے ہیں۔یہ کہانی ایک ایسی معاشرے کی عکاس ہے جہاں پر مولوی صاحب کی بیٹی پر شک کیا جاتا ہے آگے خود پڑھیںگاوں کی عورتیں مولوی کے گھر آنے لگیں اور پوچھنے لگیں کہ۔
ایسا کیا ہوگیا کہ بیٹی کو یہ گناہ کرنا ہڑا۔ اس کی شادی کیوں نا کروادی کس کیساتھ منہ کالا کیا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ گاوں کی پنچائت نے مولوی صاحب سے امامت واپس لے لی اور انہیں ایک ماہ کا وقت دے دیا کہ وہ اپنی رہائش کا بندوبست کسی اور گاوں میں کر لیں۔گاوں والوں نے بھی اپنی بچیوں کو مولوی کی بیوی کے پاس بھیجنا چھوڑ دیا۔
ہر طرف سےمولوی صاحب پریشانیوں میں گھیرے جا چکے تھے انہیں کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔جا کر دروازہ کھولو تو سامنے ایک خوبرو نوجوان کھڑا تھا۔ اندر آنے کی اجازت طلب کی تو مولوی صاحب پریشانی کے عالم میں کچھ سوچنے لگے
۔ لڑکا سمجھ گیا اور اپنا تعارف کروایا کہ میں آپ کا شاگرد بچپن میں آپ سے قرآن پڑھا ہے فلاں شخص کا بیٹا ہوں اور برابر والے گاوں سے آیا ہوں ۔ مولوی صاحب نے پہچان لیا اور اسے اندر لے آئے ۔ اس نے اپنے آنے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ اسے معلوم ہوا ہے کہ آپ کی بیٹی کیساتھ یہ ماجرا پیش آیا ہے ۔ایک دن وہ پریشانی کے عالم میں بیٹھے تھے کہ
دروازے پر دستک ہوئی۔جا کر دروازہ کھولو تو سامنے ایک خوبرو نوجوان کھڑا تھا۔ اندر آنے کی اجازت طلب کی تو مولوی صاحب پریشانی کے عالم میں کچھ سوچنے لگے۔ لڑکا سمجھ گیا اور اپنا تعارف کروایا کہ میں آپ کا شاگرد بچپن میں آپ سے قرآن پڑھا ہے فلاں شخص کا بیٹا ہوں اور برابر والے گاوں سے آیا ہوں ۔ مولوی صاحب نے پہچان لیا اور اسے اندر لے آئے
۔ اس نے اپنے آنے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا کہ اسے معلوم ہوا ہے کہ آپ کی بیٹی کیساتھ یہ ماجرا پیش آیا ہے ۔مذید بتایا کہ وہ شہر سے حکمت کو کورس مکمل کر کے آیا ہے اور گاوں میں حکمت خانہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔لیکن آتے ہی اسے اس بات کا علم ہوا تو اسے یقین نہیں آیا کہ یہ واقعہ سچ ہے۔
اور وہ اس کاراز معلوم کرنے پہنچ گیا مولوی صاحب کو بھی کچھ امید سی نظر آنے لگی۔اس لڑکے نے مولوی صاحب کی بیٹی کی نبض دیکھی کچھ تفصیلات پوچھیں اور پھر کچھ سوچتے ہوئے مولوی صاحب سے ایک بکرے اور ایک کتے کا بندوبست کرنے کو کہا جبکہ لڑکی کو دن کا کھانا کھانے سے منع کیا اور بھوکا رہنے کو کہا۔ اس کی بات پر عمل کرنا پڑا
مولوی صاحب اور کرتے بھی کیا ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔رات تک سارا بندوبست کر دیا لڑکے یعنی حکیم نے گاوں کی کچھ معزز عورتوں کو بھی بلوا لیا اور ان سے بکرے کا گوشت پکانے کو کہا۔ جب گوشت پک چکا تو اس لڑکے نے لڑکی سے کہا کہ پیٹ بھر کر گوشت کھائے۔ لڑکی بھی صبح سے بھوکی تھی جی بھر کر گوشت کھایا ۔جب لڑکی نے گوشت کھا لیا تو
اس وقت تک محلے کے کچھ مزید لوگ بھی مولوی کے گھر کے باہر جمع ہونے شروع ہوگئے۔کہ یہاں کیا ماجرا چل رہا ہے۔ اس لڑکے نے مولوی صاحب کی بیٹی کو بلوایا اور دوسرے کمرے میں لے گیا جہاں اس نے پہلے سے کتا زبح کر کے رکھا ہوا تھا۔اس لڑکی کو بتایا کہ جو گوشت اس نے کھایا ہے وہ اسی کتے کا گوشت تھا۔
بس پھر کیا تھا لڑکی نے الٹیاں شروع کردی اور جو کچھ کھایا تھا سب باہر آنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں اس کے پیٹ سے الٹی کے ذریعے ایک مینڈک بھی باہر نکل آیا جسے سب محلے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔جیسے ہی مینڈک باہر نکلا لڑکی کو کچھ سکون سا محسوس ہونے لگا۔ تو وہ لڑکا کہنے لگا کہ
اس لڑکی نے کسی ندی یا دریا کا پانی پیا تھا اس وقت چھوٹا سا مینڈک کا بچہ اس کے حلق کے زریعے پیٹ تک جا پہنچا۔ جب وہ مینڈک کا بچہ بڑا ہوا تو اسے تکلیف شروع ہو گئی اور انفیکشن کی وجہ سے پیٹ بھی پھولنا شروع ہوگیا۔گاوں کے سب لوگ اس لڑکے کی ذہانت اور حکمت دیکھ چکے تھے
اور اس لڑکی کی پاکدامنی بھی سب پر واضح ہو گئی۔مولوی صاحب نے اس لڑکے کے اسرار پر اپنی بیٹی نکاح اس نوجوان سے کردیا اور یوں وہ ہنسی خوشی اپنی زندگی بسر کرنے لگے۔۔۔۔