چالیس سیکنڈز میں چالیس سال؛ ان چالیس سیکنڈ میں شازیہ نے آنے والے چالیس سالوں کے لئے سوچا

تامیا شازیہ آج بہت خوش تھی کیونکہ شازیہ کے لیے آج نیم کا رشتہ آیا تھا ۔ وہ خو بصورت پڑھی لکھی اور ایک باشعور لڑکی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ اسے دیکھتے ہی لڑکے کے ماں باپ نے ہاں کر دی تھی ۔ نعیم بھی ایک خوبصورت اور پڑھا لکھا لڑکا تھا ۔ اور کسی سرکاری ادارے میں جاب کرتا تھا ۔

شازیہ کے ماں باپ بھی اس رشتے پر راضی ہو گئے ۔ سب گھر والوں نے منہ میٹھا کیا اوردو ماہ بعد شادی کی تاریخ رکھی گئی ۔ شادی کی تیاریوں میں دو ماہ تو ایسے گزرے کہ پڑ ھی نہ چلا ۔ شادی کا دن آ گیا اور شاز یہ نعیم کے ساتھ بیاہ کر چلی گئی ۔ شادی کے بعد نعیم اور شازیہ بہت خوش تھے نعیم اپنی والدہ کا بہت فرمانبر دار تھا ۔ وہ کبھی بھی اپنی والدہ کے سامنے سر اٹھا کر بات نہ کرتا ۔ شادی کے چھٹے مہینے ہی

شازیہ امید سے ہو گئی ۔ ساس سسر اور نندیں سمجھینے مبارک باد دی , اور لڑکا ہو گا لڑ کا ہو گا کہنا شروع کر دیا ۔ شاذیہ کی ساس جب بھی اسے لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتی ۔ تو اسے منا کر دیتی کہ وہ یہ نہ بتائے کہ لڑکا ہے یا لڑ کی انھیں پورا یقین تھا کہ لڑکا ہی ہو گا ۔ ڈلیوری کا وقت قریب آیا تو شوہر کے ساتھ ساتھ سسرال کے تقریبا بھی افرادی ہسپتال میں بیٹے کی خوشخبری سننے کے لیے موجود تھے ۔ ڈلیوری نارمل ہوئی اورڈاکٹروں نے بیٹی کی پیدائش کی خبر سنا دی ۔ یہ سن کر شازیہ کی ساس کا منہ بن گیا

۔ جبکہ دوسرے افراد اپنے اپنے جذبات پر قابو پانے میں کامیاب رہے ۔ شازیہ دو دن بعد گھر آئی تو معلوم ہوا کہ گھر کے حالات پہلے جیسے ہیں ۔ وہ ساس جو بہت خوش ہوتی ں تھی آج بے رخی سے بات کر رہی تھی ۔ خیر نیم کا رویہ شازیہ کے ساتھ ویسے ہی تھا جیسے پہلے ہوتا تھا ۔ نیم اور شازیہاپنی بیٹی کا بہت خیال رکھتے تھے ۔ اگلے ہی سال شازیہ دوبارہ امید سے ہو گئی ، اس بار بھی سسرالی رشتہ دار لڑ کے کی امید لے کر شازیہ کی خدمت کرتے رہے ۔ خدا کا کرنا کہ اس بار بھی لڑ کی ہوئی اور اس بار ساس کے ساتھ ساتھ نندوں نے

بھی مایوسی کا اظہار کیا ۔ اور شازیہ بے بسی کی تصویر بنی ان کے رویے دیکھتی رہ گئی ۔ شازیہ نے شکر ادا کیا کہ ڈیلیوری نارمل ہوئیاپنی بیٹی کا بہت خیال رکھتے تھے ۔ اگلے ہی سال شازیہ دوبارہ امید سے ہو گئی ، اس بار بھی سسرالی رشتہ دار لڑ کے کی امید لے کر شازیہ کی خدمت کرتے رہے ۔ خدا کا کرنا کہ اس بار بھی لڑ کی ہوئی اور اس بار ساس کے ساتھ ساتھ نندوں نے بھی مایوسی کا اظہار کیا ۔ اور شازیہ بے بسی کی تصویر بنی ان کے رویے دیکھتی رہ گئی ۔ شازیہ نے شکر ادا کیا کہ ڈیلیوری نارمل ہوئیورنہ سسرال والے آپریشن پر ہونے والے اخراجات بھی باتیں سنا سنا کر نکلوا لیتے

۔ شازیہ کے والدین نے جب شازیہ کی ساس سے بات کی کہ لڑکا ہو یا لڑ کی یہ تو سب اللہ تعالی کی طرف سے ہے آپ کو تو اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے آپ کے بیٹے کو بے اولاد تو نہیں رکھا ، تو شازیہ کی ساس بجاۓ بات کو سمجھنے کے ان کو بھی خوب سنانے لگی اور وہ چپ چاپ واپس گھرچلے گئے ۔ نعیم نے اس بار بھی شازیہ کا ساتھ دیا جب ایک سال مزید گزرا تو شازیہ تیسری بار پھر ماں بننے والی تھی , تو سسرال والوں نے شازیہ کو یہ کہتے ہوۓ میکے بھیج دیا کہ

اگر بیٹیاں ہی پیدا کرنی ہے تو ڈلیوری کے اخراجات بھی تمہارے ماں باپ اور بھائی ہی اٹھائیں ۔ نعیم نے ماں سے کہا کہ یہ سب غلط ہے تو ماں نے اسے بھی یہ کہہ کر چپ کروا دیا کہ تو اب رن مرید ہوگیا ہے ۔ ماں کو چن لو یا بیوی کو نعیم خاموش ہو گیا اور شازیہ کو اس کے گھر بھیج دیا ۔ شازیہ کے ماں باپ جو پہلے ہی سب کچھ جانتے تھے اب مزید اپنی بیٹی کو دکھی نہیں دیکھ سکتے تھے

۔ وہ تو اپنی بیٹی کو ہر خوشی دینا چاہتے تھے ۔ تیسری بار بھی بیٹی پیدا ہوئی ۔ پچی کی پیدائش پر شازیہ کے سسرال سے کوئی اسے دیکھنے تک نہ آیا ۔ ڈیڑھ ماہ کی بچی اٹھاۓ شازیہ گھر واپسآئی تو اس کے لیے زمین بہت تنگ ہو چکی تھی ۔ ساس اٹھتے بیٹھتے اسے پرانی باتیں نکال نکال کر طعنے دیتی , کبھی شازیہ کی بارات کے کھانے کو خراب کہا جاتا اور کبھی جہیز پر تنقید کی جاتی ۔ اس کے پکاۓ ہوۓ کھانے بھی

اب برے لگنے لگے تھے ۔ شازیہ صبر کرنے والی لڑکی تھی ۔ وہ چپ چاپ سب کچھ سن لیتی , مزید محنت اور خدمت کر کے وہ ساس اور سر کا دل جیتنا چاہتی ‘تھی ۔ سارے گھر کا کھانا تیار کرنا , کھانا پیش کرنا , بر تن اٹھانا , برتن دھونا , کپڑے دھونا , صفایاں کرنا ۔ غرض یہ کہ گھر کا سارا کام اکیلی شازیہ کے سر تھا ۔ اب تو نیم بھی شازیہ سے خفا خفا رہنے گے تھے ۔ عید آئی تو سارا سامان نکال کر شازیہ نے نئی سیٹنگ کی سیڑھی پر چڑھ کر پنکھے صاف کئے , اپنا گھر ہے صاف ہوگا تو سب گھر والے بھی خوش ہوں گے , یہی سوچ سوچ کر شازیہ دنرات کام میں لگی رہتی

, روزانہ ساس کے سر میں تیل کی مالش کرنا اور سر کے پاؤں دبانا شازیہ کی ذمہ داری تھی , اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی گھر میں فیم کی دوسری شادی کی باتیں ہونے لگیں ۔ نیم بھی اب دوسری شادی کے خواب دیکھنے لگا تھا ۔ شازیہ کی حیثیت اس گھر میں بس ایک نوکرانی جتنی تھی ۔ شازیہ کی پہلی بیٹی پانچ سال دوسری چار سال اور تیسری ڈیڑھ سالکی ہو گئی تھی ۔ شازیہ کی بیٹیاں بھی شازیہ کی طرح خوبصورت اور معصوم تھیں ۔ وہ کمرہ بند کر کے اکثر آنسو بہا لیا کرتی تھی ۔

لیکن اس گھر میں اب اس کی کوئی وقعت نہیں تھی ۔ شازیہ چو تھی بار امید سے ہوئی تو اس بار ہر نسخہ ہر وظیفہ آزمایا گیا , طرح طرح کے تعویز بنا کر باندھے گئے , شازیہ خود بھی بہت ڈری ہوئی تھی ۔ اس بار تو شازیہ کی ساس نے کوئی پیر نہیں چھوڑا ۔ہر پیر کے پاس شازیہ کو لے کر گئی ۔ ایک پیر صاحب نے تو کچھ لکھ کر دیا اور کہا کہ اسے اپنی ناف پر باند ھو , بیٹا ہو گا , الغرض ہر طریقہ آزما لیا گیا ۔ جوں جوں ڈلیوری کے دن قریب آتے گئے ۔ ڈر شازیہ کے دل میں بیٹھ گیا ۔ وہ ہر وقت یہی دعا کرتی کہ اس کے ہاں لڑکا ہو جاۓ , وہ ہر وقت یہی سوچتی کہ لڑکی ہو گئی

تو کیا ہو گا ۔ جب ڈلیوری کا وقت قریب آیا تو اسے یہ کہہ کر اسکے ماں باپ کے گھر بھیج دیا گیا کہ اگر اس بار بھی لڑ کی ہوئی تو تمہیں واپس آنے کی ضرورت نہیں ہے , طلاق کے پپر تمہارے گھر بھیج دیئے جائیں گے ۔ نعیم نے بھی شازیہ سے منہ موڑ لیا تھا ۔ وہ روتی ہوئی اپنی بیٹیوں کو لے کر میکے چلی گئی ۔ شازیہ کی ماں اسے لے کر ایک پرائیویٹ ہسپتال پنچی , لیبر روم جاتے ہوۓ بھی , شازیہ بہت ڈری ہوئی تھی ۔ ڈلیوری کے بعد ایک لیڈی ڈاکٹر نے ایک

ہر پیر کے پاس شازیہ کو لے کر گئی ۔ ایک پیر صاحب نے تو کچھ لکھ کر دیا اور کہا کہ اسے اپنی ناف پر باند ھو , بیٹا ہو گا , الغرض ہر طریقہ آزما لیا گیا ۔ جوں جوں ڈلیوری کے دن قریب آتے گئے ۔ ڈر شازیہ کے دل میں بیٹھ گیا ۔ وہ ہر وقت یہی دعا کرتی کہ اس کے ہاں لڑکا ہو جاۓ , وہ ہر وقت یہی سوچتی کہ لڑکی ہو گئی تو کیا ہو گا ۔ جب ڈلیوری کا وقت قریب آیا تو اسے یہ کہہ کر اسکے ماں باپ کے گھر بھیج دیا گیا کہ اگر اس بار بھی لڑ کی ہوئی تو تمہیں واپس آنے کی ضرورت نہیں ہے ,

طلاق کے پپر تمہارے گھر بھیج دیئے جائیں گے ۔ نعیم نے بھی شازیہ سے منہ موڑ لیا تھا ۔ وہ روتی ہوئی اپنی بیٹیوں کو لے کر میکے چلی گئی ۔ شازیہ کی ماں اسے لے کر ایک پرائیویٹ ہسپتال پنچی , لیبر روم جاتے ہوۓ بھی , شازیہ بہت ڈری ہوئی تھی ۔ ڈلیوری کے بعد ایک لیڈی ڈاکٹر نے ایکننھا سا وجود شازیہ کے سینے پر رکھتے ہوۓ کہا , مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے ۔ یہ الفاظ شازیہ برداشت نہ کر سکی , اسکا دل رک گیا ۔ ہارٹ اٹیک اتنا شدید تھا کہ وہ چالیس

سیکنڈ میں ہی مر چکی تھی ۔ وہ چالیس سیکنڈ شازیہ پر یوں گزرے جیسے چالیس سال ہوں ۔ ان چالیس سیکنڈ میں شازیہ یہ سوچتی رہی کہ بیٹی پیدا کرنے میں کیا گناہ ہے ، بیٹی پیدا ہونے میں کیا گناہ ہے ، میری تینبچیوں نے کیا گناہ کیا اور یہ جو ابھی چالیس سیکنڈ پہلے ایک بیٹی میرے سینے پر رکھ کر مبارک باد دی گئی اس معصوم کا کیا گناہ ہے ۔ ان چالیس سیکنڈ میں شازیہ نے آنے والے چالیس سالوں کے لئے سوچاہ بن ماں کے چار بچیاں کون سنجالے گا

۔ ڈاکٹروں نے شازیہ کی لاش اور بچی شازیہ کی بوڑھی ماں کے حوالے کر دی ۔ جب شازیہ کے شوہر اور ساس کو اس کے مرنے کی خبر دی گئی تو انہوںنے یہ کہہ کر بات ہی ختم کر دی کہ جب شازیہ ہی نہیں رہی , تو وہ بچیوں کا کیا کریں گے , آج سے بچیاں آپ کے پاس ہی رہیں گی ۔ یہ کہہ کر انہوں نے فون کاٹ دیا ۔ وہ

Comments are closed.