اچھی عورت کی پہچان کے لیے کارآمد باتیں

اوپر لکھی ہوئی ہدایتوں کے مطابق سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہترین بیوی کون ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ۔
بہترین بیوی وہ ہے!

(۱)جو اپنے شوہر کی فرماں برداری اور خدمت گزاری کو اپنا فرض منصبی سمجھے۔
(۲)جو اپنے شوہر کے تمام حقوق ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے!
(۳)جو اپنے شوہر کی خوبیوں پر نظر رکھے اور اس کے عیوب اور خامیوں کو نظرانداز کرتی رہے۔
(۴)جو خود تکلیف اٹھا کر اپنے شوہر کو آرام پہنچانے کی کوشش کرتی رہے۔

(۵)جو اپنے شوہر سے اس کی آمدنی سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے اور جو مل جائے اس پر صبرو شکر کے ساتھ زندگی بسر کرے۔
(۶)جو اپنے شوہر کے سوا کسی اجنبی مرد پر نگاہ نہ ڈالے اورنہ کسی کی نگاہ اپنے اوپر پڑنے دے۔
(۷)جو پردے میں رہے اور اپنے شوہر کی عزت و ناموس کی حفاظت کرے۔


(۸)جو شوہر کے مال اور مکان و سامان اور خود اپنی ذات کو شوہر کی امانت سمجھ کر ہر چیز کی حفاظت و نگہبانی کرتی رہے۔
(۹)جو اپنے شوہر کی مصیبت میں اپنی جانی و مالی قربانی کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت دے۔
(۱۰)جو اپنے شوہر کی زیادتی اور ظلم پر ہمیشہ صبر کرتی رہے۔
(۱۱)جو مَیکا اور سسرال دونوں گھروں میں ہر دلعزیز اور باعزت ہو!
(۱۲)جو پڑوسیوں اور ملنے جلنے والی عورتوں کے ساتھ خوش اخلاقی اور شرافت ومروت کا برتاؤ کرے اور سب اس کی خوبیوں کے مداح ہوں!
(۱۳)جو مذہب کی پابند اور دیندار ہو اور حقوق اﷲوحقوق العباد کو ادا کرتی رہے۔
(۱۴)جوسسرال والوں کی کڑوی کڑوی باتوں کو برداشت کرتی رہے۔
(۱۵)جو سب گھروالوں کو کھلا پلا کر سب سے آخر میں خود کھائے پئے۔

ساس بہو کا جھگڑا:۔ہمارے سماج کا یہ ایک بہت قابل افسوس اور درد ناک سانحہ ہے کہ تقریباً ہر گھر میں صدیوں سے ساس بہو کی لڑائی کا معرکہ جاری ہے۔ دنیا کی بڑی سے
بڑی لڑائیوں یہاں تک کہ عالمی جنگوں کا خاتمہ ہو گیا مگر ساس بہو کی جنگ عظیم یہ ایک ایسی منحوس لڑائی ہے کہ تقریباً ہر گھر اس لڑائی کا میدان جنگ بنا ہواہے!

کس قدر تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ ماں کتنے لاڈ پیار سے اپنے بیٹوں کو پالتی ہے اور جب لڑکے جوان ہو جاتے ہیں تو لڑکوں کی ماں اپنے بیٹوں کی شادی اور ان کا سہرا دیکھنے کے لئے سب سے زیادہ بے چین اور بے قرار رہتی ہے اور گھر گھر کا چکر لگا کر اپنے بیٹے کی دلہن تلاش کرتی پھرتی ہے۔ یہاں تک کہ بڑے پیار اور چاہ سے بیٹے کی شادی رچاتی ہے اور اپنے بیٹے کی شادی کا سہرا دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سماتی مگر جب غریب

دلہن اپنا مَیکا چھوڑ کر اور اپنے ماں باپ’ بھائی بہن اور رشتہ ناتا والوں سے جدا ہو کر اپنے سسرال میں قدم رکھتی ہے تو ایک دم ساس بہو کی حریف بن کر اپنی بہو سے لڑنے لگتی ہے اور ساس بہو کی جنگ ہوجاتی ہے اور بے چارہ شوہر ماں اور بیوی کی لڑائی کی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان کچلنے اور پسنے لگتا ہے۔ غریب شوہر ایک طرف ماں کے احسانوں کے بوجھ سے دبا ہوا اور دوسری طرف بیوی کی محبت میں جکڑا ہوا ماں اور بیوی کی لڑائی کا منظر دیکھ دیکھ کر کوفت کی آگ میں جلتا رہتا ہے اور اس کے

لئے بڑی مشکل یہ آن پڑتی ہے کہ اگر وہ اس لڑائی میں اپنی ماں کی حمایت کرتا ہے تو بیوی کے رونے دھونے اور اس کے طعنوں اور مَیکا چلی جانے کی دھمکیوں سے اس کا بھیجا کھولنے لگتا ہے۔ اور اگر بیوی کی پاسداری میں ایک لفظ بول دیتا ہے تو ماں اپنی چیخ و پکار اور کوسنوں سے سارا گھر سر پر اٹھالیتی ہے اور ساری برادری میں ”عورت کا مرید” ”زن پرست” ”بیوی کا غلمٹا” کہلانے لگتا ہے اور ایسے گرم گرم اور دل خراش طعنے سنتا ہے کہ رنج و غم سے اس کے سینے میں دل پھٹنے لگتاہے۔

اس میں شک نہیں کہ ساس بہو کی لڑائی میں ساس بہو اور شوہر تینوں کا کچھ نہ کچھ قصور ضرور ہوتا ہے لیکن میرا برسوں کا تجربہ یہ ہے کہ اس لڑائی میں سب سے بڑا ہاتھ ساس کا ہوا کرتا ہے حالانکہ ہر ساس پہلے خود بھی بہو رہ چکی ہوتی ہے۔ مگر وہ اپنے بہو بن کر رہنے کا زمانہ بالکل بھول جاتی ہے اور اپنی بہو سے ضرور لڑائی کرتی ہے اور اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ جب تک لڑکے کی شادی نہیں ہوتی۔ سو فیصدی بیٹے کا تعلق ماں ہی سے ہوا کرتا ہے۔ بیٹا اپنی ساری کمائی اور جو سامان بھی

لاتا ہے وہ اپنی ماں ہی کے ہاتھ میں دیتا ہے اور ہر چیز ماں ہی سے طلب کرکے استعمال کرتا ہے اور دن رات سینکڑوں مرتبہ اماں۔ اماں کہہ کر بات بات میں ماں کو پکارتا ہے۔ اس سے ماں کا کلیجہ خوشی سے پھول کر سیر بھر کا ہو جایا کرتا ہے اور ماں اس خیال میں مگن رہتی ہے کہ میں گھر کی مالکن ہوں۔ اور میرا بیٹا میرا فرماں بردار ہے لیکن شادی کے بعد بیٹے کی محبت بیوی کی طرف

رخ کر لیتی ہے۔ اور بیٹا کچھ نہ کچھ اپنی بیوی کو دینے اور کچھ نہ کچھ اس سے مانگ کر لینے لگتا ہے تو ماں کو فطری طور پر بڑا جھٹکا لگتا ہے کہ میرا بیٹا کہ میں نے اس کو پال پوس کربڑاکیا۔اب یہ مجھ کو نظر انداز کر کے اپنی بیوی کے قبضہ میں چلا گیا۔ اب اماں ۔ اماں پکارنے کی بجائے بیگم بیگم پکارا کرتا ہے۔ پہلے اپنی کمائی مجھے دیتا تھا ۔ اب بیوی کے ہاتھ سے ہر چیز لیادیا کرتا ہے۔

اب گھر کی مالکن میں نہیں رہی اس خیال سے ماں پر ایک جھلاہٹ سوارہوجاتی ہے اور وہ بہو کو جذبہ حسد میں اپنی حریف اور مد مقابل بنا کر اس سے لڑائی جھگڑا کرنے لگتی ہے اور بہو میں طرح طرح کے عیب نکالنے لگتی ہے اور قسم قسم کے طعنے اور کوسنے دینا شروع کر دیتی ہے بہو شروع شروع میں تو یہ خیال کرکے کہ یہ میرے شوہر کی ماں ہے کچھ دنوں تک چپ رہتی ہے مگرجب ساس حد سے زیادہ بہو کے حلق میں انگلی ڈالنے لگتی ہے تو بہو کو بھی پہلے تو نفرت کی

متلی آنے لگتی ہے پھر وہ بھی ایک دم سینہ تان کر ساس کے آگے طعنوں اور کوسنوں کی قے کرنے لگتی ہے اور پھر معاملہ بڑھتے بڑھتے دونوں طرف سے ترکی بہ ترکی سوال و جواب کا تبادلہ ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ گالیوں کی بمباری شروع ہو جاتی ہے۔ پھر بڑھتے بڑھتے اس جنگ کے شعلے ساس اور بہو کے خاندانوں کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ اور دونوں خاندانوں میں بھی جنگ عظیم شروع ہوجاتی ہے۔

میرے خیال میں اس لڑائی کے خاتمہ کی بہترین صورت یہی ہے کہ اس جنگ کے تینوں فریق یعنی ساس’ بہو اور بیٹا تینوں اپنے اپنے حقوق و فرائض ادا کرنے لگیں تو ان شاء اﷲتعالیٰ ہمیشہ کے لئے اس جنگ کا خاتمہ یقینی ہے ان تینوں کے حقوق و فرائض کیا ہیں ؟ان کو بغور پڑھو۔

ساس کے فرائض:۔ہر ساس کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھے اور ہر معاملہ میں اس کے ساتھ شفقت و محبت کا برتا ؤ کرے اگر بہو سے اس کی کمسنی یا نا تجربہ کاری کی وجہ سے کوئی غلطی ہو جائے تو طعنے مارنے اور کوسنے دینے کے بجائے اخلاق و محبت کے ساتھ اس کو کام کا صحیح طریقہ اور ڈھنگ سکھائے اور ہمیشہ اس کا خیال رکھے کہ یہ کم عمر اور نا تجربہ کار لڑکی اپنے ماں باپ سے جداہو کر ہمارے

گھر میں آئی ہے اس کے لئے یہ گھر نیا اور اس کا ماحول نیا ہے اس کا یہاں ہمارے سوا کون ہے؟اگر ہم نے اس کا دل دکھایا تو اس کو تسلی دینے والا اوراس کے آنسو پونچھنے والا یہاں دوسرا کون ہے ؟ بس ہر ساس یہ سمجھ لے اور ٹھان لے کہ مجھے اپنی بہو سے ہر حال میں شفقت و محبت کرنی ہے بہو مجھے خواہ کچھ نہیں سمجھے مگر میں تو اس کو اپنی بیٹی ہی سمجھوں گی تو پھر سمجھ لو کہ ساس بہو کا جھگڑا آدھے سے زیادہ ختم ہو گیا۔

بَہو کے فرائض:۔ہر بہو کو لازم ہے کہ اپنی ساس کو اپنی ماں کی جگہ سمجھے اورہمیشہ ساس کی تعظیم اور اس کی فرماں برداری و خدمت گزاری کو اپنا فرض سمجھے۔ ساس اگر کسی معاملہ میں ڈانٹ ڈپٹ کرے تو خاموشی سے سن لے۔ اور ہر گز ہرگز’ خبردار خبردارکبھی ساس کو پلٹ کر الٹا سیدھا جواب نہ دے بلکہ صبر کرے اسی طرح اپنے

خسر کو بھی اپنے باپ کی جگہ جان کر اس کی تعظیم وخدمت کو اپنے لئے لازم سمجھے۔ اور ساس خسر کی زندگی میں ان سے الگ رہنے کی خواہش نہ ظاہر کرے اور اپنی دیورانیوں اور جیٹھانیوں اور نندوں سے بھی حسب مراتب اچھا برتاؤ رکھے اور یہ ٹھان لے کہ مجھے ہر حال میں انہی لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہے۔

بیٹے کے فرائض:۔ہر بیٹے کو لازم ہے کہ جب اس کی دلہن گھر آجائے تو حسب دستور اپنی دلہن سے خوب خوب پیار و محبت کرے لیکن ماں باپ کے ادب و احترام اور ان کی خدمت و اطاعت میں ہر گز ہر گز بال برابر بھی فرق نہ آنے دے۔ اب بھی ہر چیز کا لین دین ماں ہی کے ہاتھ سے کرتا رہے اور اپنی دلہن کو بھی یہی تاکید کرتا رہے کہ بغیر میری ماں اور میرے باپ کی رائے کے ہرگز ہر گز نہ کوئی کام کرے نہ بغیر ان دونوں سے اجازت لئے گھر کی کوئی

چیز استعمال کرے۔ اس طرز عمل سے ساس کے دل کو سکون و اطمینان رہے گا کہ اب بھی گھر کی مالکہ میں ہی ہوں اور بیٹا بہو دونوں میرے فرماں بردار ہیں۔ پھر ہرگزہرگز کبھی بھی وہ اپنے بیٹے اور بہو سے نہیں لڑے گی جو لڑکے شادی کے بعد اپنی ماں سے لاپروائی برتنے لگتے ہیں اور اپنی دلہن کو گھر کی مالکہ بنا لیا کرتے ہیں۔ عموماً اسی گھر میں ساس بہو کی لڑائیاں ہوا کرتی ہیں لیکن جن گھروں میں ساس بہو اور بیٹے اپنی مذکورہ بالا فرائض کا خیال رکھتے ہیں۔ ان گھروں میں ساس بہو کی لڑائیوں کی نوبت ہی نہیں آتی۔

اس لئے بے حد ضروری ہے کہ سب اپنے اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق کا خیال و لحاظ رکھیں خداوند کریم سب کو توفیق دے اور ہر مسلمان کے گھر کو امن و سکون کی بہشت بنادے۔(آمین)

Comments are closed.