شوہر صرف 3 چیزوں کا طلبگار ہوتا ہے
شوہر کے حقوق اوربیوی کی ذمہ داریاںمیاں بیوی کے درمیان حسن ارتباط کی برقراری کیلئے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کرے۔امانت داریاس سلسلے میں پیامبر اکرم7نے فرمایا: فَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ حَقٌّ وَ لَهُنَّ عَلَيْكُمْ حَقٌّ وَ مِنْ حَقِّكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ وَ لَا يَعْصِينَكُمْ فِي مَعْرُوفٍ فَإِذَا فَعَلْنَ ذَلِكَ فَلَهُنَّ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَ لَا تَضْرِبُوهُن -1۔لوگو! عورتوں پر تمھارے
کچھ حقوق ہیں اور تمہارے اوپران کے کچھ حقوق ہیں ۔تمہارے حقوق یہ ہیں: وہ بیگانہ اور نامحرموں کیساتھ ناجائز تعلقات پیدا نہ کرے۔ اور جہاں تیری اطاعت ان پر واجب ہے اس سے سرپیچی نہ کرے۔تو اس کے بدلے میں انہیں ان کی شأن کے مطابق لباس ،نان ونفقہ اور دیگر اخراجات فراہم کرنا آپ کے ذمہ ہیں۔
غسل توبہامام صادق (ع)نے فرمایا: وہ عورت جو رات کو سو جائے جبکہ اس کا شوہر اس پرناراض ہو تو اس کیکوئیی نما ز قبول نہیں ہوگی جب تک شوہر راضی نہ ہو۔اسی طرحجو بھی عورت اپنے شوہر کے علاوہ کسی نامحرم کے خاطر خوشبو لگائیں تو جب تکغسل جنابت نہیں کرتی ، اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔
2اور ان کے جملہ حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شوہر کو ان پر نہ مارنے کا حق نہیں ہے۔ واضح ہے کہ مرد اور عورت دونوں ازدواجی زندگی میں مشترکہ حقوق کی ادائیگی کے ذمہ دار ہیں۔ مذکورہ حدیث میں بعض حقوق کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ خود کو یک طرفہ حقوق کا طلبگار اور بیوی کو مقروض سمجھ بیٹھیں،بلکہ دونوں کے حقوق متبادل اور متقابل ہیں۔
اور متقابل حقوق کے قائل ہونا ہی مہر و محبت بھری زندگی کیلئے مناسب مواقع فراہم کرتاہے۔شوہر کی اطاعت باعث مغفرتخداوند مہربان نے اطاعت گذار عورت کو نہ صرف دنیا میں پر سکون زندگی کی شکل میں اجر اور ثواب کا مستحق قرار دیابلکہ قیامت کے دن اس کے بدلے میں عورت کی مغفرت اور بخشش کا بھی بندوبست کیا ہے
۔ :قَالَ الصادق : إِنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ص خَرَجَ فِي بَعْضِ حَوَائِجِهِ فَعَهِدَ إِلَى امْرَأَتِهِ عَهْداً أَنْ لَا تَخْرُجَ مِنْ بَيْتِهَا حَتَّى يَقْدَمَ وَ أَنَّ أَبَاهَا مَرِضَ فَبَعَثَتِ الْمَرْأَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَتْ إِنَّ زَوْجِي خَرَجَ وَ عَهِدَ إِلَيَّ أَنْ لَا أَخْرُجَ مِنْ بَيْتِي حَتَّى يَقْدَمَ وَ إِنَّ أَبِي مَرِضَ أَ فَتَأْمُرُنِي أَنْ أَعُودَهُ فَقَالَ لَا اجْلِسِي فِي بَيْتِكِ وَ أَطِيعِي زَوْجَكِ قَالَ فَمَاتَ فَبَعَثَتْ إِلَيْهِ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي قَدْ مَاتَ أَ فَتَأْمُرُنِي
أَنْ أُصَلِّيَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَا اجْلِسِي فِي بَيْتِكِ وَ أَطِيعِي زَوْجَكِ قَالَ فَدُفِنَ الرَّجُلُ فَبَعَثَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ ص إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى قَدْ غَفَرَ لَكِ وَ لِأَبِيكِ بِطَاعَتِكِ لِزَوْجِكِ -3چنانچہ امام صادق(ع) سے روایت ہے
: ایک صحابی کسی کام سے سفر میں نکلتے وقت اپنی بیوی سے کہہ کر گیاکہ جب تک میں واپس نہ لوٹوں تو گھر سے باہر قدم نہ رکھنا ۔ اس فرمانبردار بیوی نے بھی اس کی اطاعت میں کوتاہی نہیں کی۔ اتّفاقاً انہی ایام میں اس عورت کا باپ بیمار ہوگیا، تو اس خاتون نے گھر میں سے کسی کو پیامبر(ص) کی خدمت میں بھیجا اگر اجازت ہو تو اپنے بیمار باپ کی عیادت کیلئے چلی جاؤں ، پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا:اپنے گھر سے نہ نکلو
اور اپنے شوہر کی اطاعت کرو۔ کچھ دن بعد اس کا باپ اس دار فانی سے چل بسے۔ اس خاتون نے پھر آپ سے باپ کی تشییع جنازے میں شرکت کی اجازت مانگی ،تو پھر فرمایا:نہیں گھر سے نہ نکلو اپنے شوہر کی اطاعت کرو۔اور جب اس کا باپ دفن ہوا تو خود پیامبر(ص)نے اس مؤمنہ کی طرف پیغام بہیجا: خدا نے تمھاری اس اطاعت کے بدلے میں تمہیں اور تیرے باپ دونوں کو بخش دیا ہے۔آرام و سکون فراہم کرنارسول اسلام (ص) نے بیوی کیلئے چاردیواری کے اندر والا کام انتخاب کرتے ہوئے فرمایا:
حقّ الرجل علی المرأة انارة السّراج واصلاح الطّعام وان تستقبلہ عند باب بیتھا فترحّب و ان تقدّم الیہ الطّست والمندیل وان لا تمنعہ نفسھا الاّ من علّة-4شوہر کیلئے آرام و سکون پہنچانے کے ساتھ ساتھ گھریلوکاموں مثلا صفائی ، کھانا پکانا ، کپڑے اور برتن دھونا، اچھی غذا تیار کرنا،اور جب شوہر گھر میں داخل ہو تو سبسے پہلے تو اس کی استقبال کیلئے دروازے پر جانا اور خوش آمدید کہنا
۔۔۔۔آپ کی ذمہ داریوں میں سے ہیں جن کی رعایت کرنے سے دونوں کی زندگی پر لطف اور پائیدار ہوسکے گی۔ اور آپس میں پیار و محبت بڑھ جائے گی۔ اور آپس کی محبت کو قرآن نے خدا تعالی کا عظیم معجزہ کہا ہے: وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ –
5 اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیاہے تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اورپھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبانِ فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں ۔ آپ کی اس محبت آمیز رفتار سے شوہر پر بڑا اثر پڑیگا اور وہ کبھی بھی آپ کی یہ محبت آمیز باتیں اور ادائیں نہیں بھولے گا۔۔ شیخ صدوق؛ الخصال ، ج۲،ص۴۸۷۔2 ۔ وسائل الشیعہ،ج١٤،ص١١٣۔3 ۔
مستدرک الوسائل،ج۱۴، ص۲۵۸۔4 ۔ مستدرک الوسائل،ج١،ص٥٥١ ۔5 . روم ۲۱۔شوہر کی رضایت کا خیال رکھنارسول اللہ (ص)نے فرمایا: قَالَ ع أَيُّمَا امْرَأَةٍ آذَتْ زَوْجَهَا بِلِسَانِهَا لَمْ يَقْبَلِ اللَّهُ مِنْهَا صَرْفاً وَ لَا عَدْلًا وَ لَا حَسَنَةً مِنْ عَمَلِهَا حَتَّى تُرْضِيَه 1ہر وہ عورت جو زبان کے ذریعے اپنے شوہر کو اذیت و آزار پہنچاتی ہے تو خدا اس سے نہکوئیی صدقہ نہکوئیی حسنہ اور نہکوئیی کفارہ قبول کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کا شوہر راضی ہوجائے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر شوہر راضی نہ ہوتو اس عورت کا صدقہ خیرات بھی قبول نہیں ہے۔امام محمد باقرA نے اپنے جد گرامی امیرالمؤمنین (ع)سے نقل کیا ہے:آپ نے فرمایا : میں اور جناب فاطمہ(س) ایک دن آپ کے حضور7 پہنچے تو دیکھا آپ سخت گریہ کررہے تھے،میں نے وجہ پوچھی، تو فرمایا:
یا علی (ع) جس رات معراج پر گیا تو اپنی امت کی عورتوں پر مختلف قسم کے سخت عذاب کا مشاہدہ کیا جسے دیکھ کر سخت پریشان ہوں اور رو رہا ہوں۔پھر فرمایا:وَ أَمَّا الْمُعَلَّقَةُ بِلِسَانِهَا فَإِنَّهَا كَانَتْ تُؤْذِي زَوْجَهَا وَ أَمَّا الْمُعَلَّقَةُ بِرِجْلَيْهَا فَإِنَّهَا كَانَتْ تَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهَا بِغَيْرِ إِذْنِ زَوْجِهَا-2 دیکھا کہ عورتوں کے ایک گروہ کو زبانوں کیساتھ لٹکائی ہوئی ہیں جو اپنے شوہر کو زبان درازی کے ذریعے تنگ کیا کرتی تھیں ۔ دوسرے گروہ کو دیکھا کہ جن کو پیروں کیساتھ لٹکائی ہوئی تھیں
، وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلتی تھیں۔ایک اور روایت میں فرمایا : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص أَيُّمَا امْرَأَةٍ خَرَجَتْ مِنْ بَيْتِهَا بِغَيْرِ إِذْنِ زَوْجِهَا فَلَا نَفَقَةَ لَهَا حَتَّى تَرْجِعَ -3 اگرکوئیی عورت اپنے شوہر کی اجاذت کے بغیر گھر سے نکلے تو واپس پلٹنے تک اس کا نان ونفقہ شوہر پر واجب نہیں ہے ۔ان روایات سے جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ خواتین اپنے شوہر کی اجازت اور رضایت کو ہر کام سے پہلے طلب کرے۔ اور شوہر کا حق ہے کہ اگر مصلحت جانتا ہو اجازت دیدے ورنہ نہ دے۔
یہی وجہ ہے حضور نے فرمایا :سارے حقوق سے زیادہ شوہر کے حقوق اہم ہے۔ اور جس نے اپنے شوہر کے حقوق ادا نہ کیے تو اسنے خدا کی صحیح بندگی اور اطاعت نہیں کی-4پھر فرمایا : وَ لَوْ أَمَرْتُ أَحَداً أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا -5 غیر خدا کو اگر ۔ وسائل الشیعہ،ج ۲۰، ص ۲۱۱۔ من لایحضرہ ج۴،ص ۱۳۔2 ۔ وسائل الشیعہ ، ج۲۰، ص ۲۱۳۔3 ۔ کافی،ج۵، ص۵۱۴۔4 ۔ کافی،ج٥،ص٥٠٨ ، مکارم اخلاق،ص٢١٥۔5 ۔ مستدرک الوسائل،ج۱۴، ص۲۴۶۔
بدترین عورتشارع اقدس نے اس عورت کو بدترین عورت قرار دیا ہے جو اپنے شوہر پر مسلط ہو، بغض و کینہ رکھتی ہو ،برے اعمال کی پروا نہیں کرتی ہو،شوہر کی غیر موجودگی میں بناؤ سنگار کرکے دوسروں کے سامنے آتی ہو، اور جب شوہر آتا ہے تو پردہ دار بن جا تی ہو اور شوہر کی بات نہیں مانتی ہو -1جنسی خواہشات پوری کرنا :چونکہ مرد طبیعتاً تنوّع جنسی کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے تو عورت کو بھی چاہئے کہ جتنا ہوسکے مرد کی اس خواہش کو پوری کرے۔ اور یہ ان کا اہم ترین وظیفہ ہے۔ متعدد روایات اس بات کی طرف ہمیں توجّہ دلاتی ہیں ۔
رسول اللہ 7نے فرمایا:الْحَسَنُ بْنُ الْفَضْلِ الطَّبْرِسِيُّ فِي مَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ عَنِ النَّبِيِّ ص قَالَ لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ أَنْ تَنَامَ حَتَّى تَعْرِضَ نَفْسَهَا عَلَى زَوْجِهَا تَخْلَعَ ثِيَابَهَا وَ تَدْخُلَ مَعَهُ فِي لِحَافِهِ فَتُلْزِقَ جِلْدَهَا بِجِلْدِهِ فَإِذَا فَعَلَتْ ذَلِكَ فَقَدْ عَرَضَتْ -2یعنی عورت کو چاہئے کہ جب وہ سونے لگے تو اپنے شوہر کے ساتھ لباس اتار کر سوئے،اور اپنے جسم کو شوہر کے جسم سے مس کرکے سوئے
۔امام باقر (ع)نے فرمایا : جائت امرأة الی رسول اللہ(ص) فقالت یا رسول اللہ (ص)ما حقّ الزّوج علی المرأة ؟ فقال لھا: ۔۔۔ ولا تمنعہ نفسہا وان کانت علی ظھر قتبٍ-3 ایک عورت رسولخدا (ص) کی خدمت میں آئی اور عرض کی شوہر کے متعلق ہماری شرعی ذمہ داری کیا ہے؟ تو رسولخدا (ص)نے جواب دیا کہ خود کو ان کیلئے ہمیشہ تیّا ر رکھیں
خواہ سواری پر بھی کیوں نہ ہو۔یہ وہ دستورات ہیں جن پرعمل پیراہونا مرد اور عورت دونوں پر لازم ہے