ایک مہینے کے اندر اندر وہ سب کا بہت اچھا دوست بن گیا

کئی سال پہلے میں جس آفس میں جاب کرتا تھا وہاں کا ماحول کافی ویسٹرن تھا ۔ لڑکے لڑکیاں بہت فرینک تھے اور ہر ایک کے کمپیوٹر کے ساتھ سپیکر زاٹیچڈ تھے چنانچہ ہال میں ہر وقت وہاں لڑکے لڑکیوں کے قبضہوں اور میوزک کے آواز میں گونجا کر نہیں ۔ *

ایک دن ہمارے ایک بہت بڑے کلائینٹ کا ایک نیا پراجیکٹ شروع ہوا جس کیلئے ہمیں عارضی بنیادوں پر ایک انجینئر کی ضرورت پڑی جو ہماری کمپنی کی ایک دوسری برانچ میں جاب کرتا تھا، چنانچہ اس کو تین ماہ کیلئے ہمارے آفس

رانسفر کر دیا گیا۔ اس کی عمر تقریباً تیس بتیس سال تھی، انجینئر نگ یونیورسٹی سے بہت اچھے نمبروں سے کامیاب ہوا تھا اور کفتگو سے بہت پڑھا لکھا

اور لائق فائق لکھا تھا۔

ان سب باتوں کے باوجود ہم سب لوگوں کو اس

کا ہمارے درمیان آنا اچھا نہیں لگا کیونکہ اس کی کافی لمبی داڑھی تھی اور وہ ایک کٹر مذہبی قسم کا نوجوان تھا۔

ہم سب نے فیصلہ کیا کہ اس کو اگنور کر یں گے اور اپنی روٹین جاری رکھیں گے چنانچہ ہم نے میوزک اور دوسری ایکٹیویٹیز جاری رکھیں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ جب بھی نماز کا وقت ہوتا ، وہ اٹھ کر ہر ایک کے پاس آتنا ، اسے نماز کی دعوت دیتا اور وضو کر کے وہیں ہال میں نماز پڑھنا شروع کر دیتا جسکی وجہ سے مجبوراً ہمیں میوزک بند کرنا پڑ جاتا ۔

آہستہ آہستہ ہم اس کے ساتھ گھلنالنا شروع ہوئے ۔ وہ ایک انتہائی قابل شخص ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ملنسار بھی تھا۔ جس کسی کو بھی کوئی پر اہلم پیش آتی ، وہ خود اٹھ کر اس کی مدد کرتا ،

حتی کہ وہ اپنے سے جو تغیر کو لیز کیلئے کچن سے چائے اور پانی بھی لے آتا ۔

ایک مہینے کے اندراندروہ سب کا بہت اچھا دوست بن گیا جس کی وجہ سے ہم سب نے میوزک بلند آواز میں سننے کی بجائے ہیڈ فونز سے سننا شروع کر دیا تاکہ اس کے جزبات مجروح نہ ہوں ۔ اب کچھ لوگوں نے اس کے ساتھ باجماعت نماز بھی پڑھنی شروع کر دی تھی ۔ تین ماہ بعد ہم سب لوگ باجماعت نماز پڑھنا شروع کر چکے تھے اور یم نے اپنے کمپیوٹروں سے سپیکر اتار دیئے تھے ۔ کئی لوگوں نے داڑھیاں بھی رکھنی شروع کر دیں تھیں ۔ جب وہ اپنا پراجیکٹ ختم کر کے ہمارے آفس سے جار ہا تھا تو ہم میں سے ہر شخص اداس تھا۔ ہم نے اسے بہت کنوینس کرنے کی کوشش کی کہ وہ ہمارے آفس کو جوائن کرلے لیکن وہ نہ مانا۔ ہم نے اسے دھمکی بھی دی کہ اگر وہ چلا گیا تو ہم پھر سے میوزک سننا شروع کر دیں گے اور نمازیں نہیں پڑھیں گے لیکن وہ صرف مسکرا کر رہ گیا۔

آج کسی نے پوچھا تھا کہ سچا مسلمان کون ہوتا ھے تو میرے دماغ میں فوراً اسی انجینئر کا خیال آیا * *جوا اپنے عمل سے ہم سب کو گناہوں سے نکال کر اچھے راستے پر لگا گیا۔ ہمیں ایسے مسلمانوں کی ضرورت هے * نہ کہ ان کی جو ہاتھ میں ڈنڈے اور منہ میں گالیاں لیتے پھرتے ہیں اور اعمال ایسے کہ خدا کی

پناہ ۔ !!!

Comments are closed.