عمران،بشریٰ نے ملک ریاض سے غیر قانونی مالی فوائد حاصل کئے

سابق وزیراعظم عمران خان اور بشریٰ بی بی کو ایک نئے کیس میں آنے والے دنوں میں سزا ہونے والی ہے

بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشری بی بی کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس آخری مرحلے میں داخل ہوگیا ہے،وکلا صفائی نے 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کے 35 گواہوں پر جرح مکمل کرلی. نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں کہا کہ 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں مزید کوئی شواہد پیش نہیں کرنا چاہتے، ، 8 نومبر کو دونوں ملزمان کو 342 کے بیان کے سوالنامے دیے جائیں گے،کیس کا اگلے ہفتے تک فیصلہ متوقع ہو سکتا ہے جس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا سنائی جا سکتی ہے،

190 ملین پاؤنڈ اسکیںڈل میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف الزامات کی تفصیل سامنے آئی ہے، برطانیہ میں نیشنل کرائم ایجنسی نے 190 ملین پاؤنڈ کا سراغ لگایا۔190 ملین پاؤنڈ پاکستان منتقل ہونے سے قبل Asset ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر نے پراپرٹی ٹائیکون سے خفیہ معاہدہ کیا،بانی پی ٹی آئی رولز آف بزنس 1973 کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے۔شہزاد اکبر نے 6 دسمبر 2019 کو نیشنل کرائم ایجنسی کی رازداری ڈیڈ پر دستخط کئے۔بانی پی ٹی آئی نے ملک ریاض کے ساتھ معاہدے کو اپنے اثر و رسوخ سے کابینہ میں منظور کروایا۔بشریٰ بی بی نے بانی پی ٹی آئی کی غیر قانونی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کیا۔بشریٰ بی بی نے 24 مارچ 2021 کو بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی کی دستاویزات پر دستخط کرکے بانی پی ٹی آئی کی مدد کی۔بانی پی ٹی آئی نے غیر قانونی اور بے ایمانی کرکے 190 ملین پاؤنڈ میں سے 170 ملین پاؤنڈ کی سہولت کاری کی۔خفیہ معاہدے کے ذریعے 190 ملین پاؤنڈ کو حکومت پاکستان کا اثاثہ قرار دیکر رجسٹرار سپریم کورٹ کا اکاؤنٹ استعمال کیا گیا۔شہزاد اکبر اور پراپرٹی ٹائیکون کے مابین ڈیل کے تحت زمین کی خریداری کو معاہدے کے طور پر استعمال کیا گیا۔

بشریٰ بی بی اور بانی پی ٹی آئی نے اپنی کار خاص فرحت شہزادی کے ذریعے موضع مہرہ نور اسلام آباد میں 240 کنال اراضی حاصل کی۔بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کرپٹ پریکٹسز میں ملوث پائے گئے ہیں۔بانی پی ٹی آئی نے وزارت عظمیٰ کے دوران معروف پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے غیر قانونی مالی فوائد حاصل کئے۔پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے بانی پی ٹی آئی نے ذولفی بخاری کے ذریعے 458 کنال اراضی القادر یونیورسٹی کیلئے بطور عطیہ حاصل کی۔

نیب نے یکم دسمبر 2023 کو 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کیا۔ریفرنس فائل ہونے کے بعد بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی سے اڈیالہ جیل میں تفتیش کی گئی۔عدالت نے 27 فروری کو بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد کی تھی۔190 ملین پاؤنڈ ریفرنس کا جیل ٹرائل قریبا 12 مہینے تک چلا۔نیب نے پہلے ریفرنس کے 59 گواہان کی فہرست عدالت میں جمع کرائی۔نیب نے 59 گواہان میں سے 24 گواہان کو ترک کیا۔190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں کل 35 گواہان کے بیانات قلمبند کئے گئے۔وکلاء صفائی نے تمام 35 گواہان پر جرح مکمل کی۔190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان، سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک، سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال اور القادر یونیورسٹی کے چیف فنانشل افسر اہم گواہان میں شامل تھے۔

قومی احتساب بیورو (نیب) کے مطابق ملک کے معروف بزنس ٹائیکون نے سابق وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے جہلم میں 458کنال 4 مرلے اور 58 مربع فٹ زمین عطیہ کی جس کے بدلے میں مبینہ طور پر عمران خان نے بزنس ٹائیکون کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا تھا۔

اکتوبر 2022 میں نیب نے تحقیقات شروع کردی تھی۔ نیب دستاویزات کے مطابق 3 دسمبر 2019ء کو عمران خان کی زیرِ صدارت کابینہ اجلاس میں بزنس ٹائیکون کو برطانیہ سے ملنے والی 50 ارب روپے کی رقم بالواسطہ طور پر واپس منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ رقم این سی اے کی جانب سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے الزامات پر ضبط کی گئی تھی۔عمران خان نے  ریئل اسٹیٹ ڈویلپر کے حوالے سے کابینہ کے فیصلے کے چند ہفتوں کے اندر القادر یونیورسٹی پروجیکٹ کے لیے ٹرسٹ رجسٹر کیا تھا جو بعد میں یونیورسٹی کے لیے ڈونر بن گیا۔ نیب کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق ٹرسٹ کی رجسٹریشن سے صرف 3 ہفتے پہلے عمران خان کی کابینہ نے نیشنل کرائم ایجنسی کے ذریعے پاکستان کو ملنے والی رقم واپس ملک ریاض کو بالواسطہ طور پر واپس کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

نیب راولپنڈی نے اس معاملے میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا نوٹس لیتے ہوئے نیب آرڈیننس 1999 کے تحت پرویز خٹک، فواد چوہدری اور شیخ رشید سمیت 3 دسمبر 2019 کی کابینہ اجلاس میں موجود تمام ارکان کو علیحدہ علیحدہ تاریخوں پر طلب کیا تھا۔2019 میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے بزنس ٹائیکون کے خلاف تحقیقات کیں اور پھر تحقیقات کے نتیجے میں بزنس ٹائیکون نے تصفیے کے تحت 190 ملین پاؤنڈ کی رقم این سی اے کو جمع کروائی۔ اس تصفیے کے نتیجے میں حاصل ہونے والی 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت ہے جسے پاکستان منتقل کردیا گیا۔

تاہم پاکستان میں پہنچنے پر کابینہ کے فیصلے کے تحت رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں بزنس ٹائیکون کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے کی تصفیے کے ذریعے قسطوں میں ادائیگی کر رہے ہیں۔ نیب کے مطابق ملزم سے ضبط شدہ رقم واپس اسی کو مل گئی جبکہ یہ رقم ریاستِ پاکستان کی ملکیت تھی مگر اسے ملک ریاض کے ذاتی قرض کو پورا کرنے میں خرچ کیا گیا۔2019 میں عمران خان کی سربراہی میں کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا اور معاملے کو حساس قرار دے کر اس حوالے سے ریکارڈ کو بھی سیل کردیا گیا تھا

Comments are closed.