لازوال بےشمار توانائی کا ذریعہ پھل

پاکستان میں کثرت سے دستیاب ہونے والا پھل ’ بہی‘ (کوئینس) کی بنیادی پیداوار ایران اور ترکی سے ہے۔اس پھل کی خوشبو سے اس کی قوت کا اندازہ لگانا بے جا نہیں۔ اس میں اگرچہ کچھ حد تک قبض کا سبب بننے والے اجزاء موجود ہیں

مگر دل کو قوت بخشنے، خون کی باریک نالیوں ( رگوں، شریانوں ) کو جمی چربی سے صاف کرنے، دماغ کو قوی کرنے ، معدے کو مضبوط کرنے جیسے افعال کے مقابلے میں قبض پیدا کرنے کی کیفیت کوئی خاص نقصان دہ ثابت نہیں۔یہ ایک متفقہ رائے ہے کہ اکثر اشیاء جو معدے کو قوت فراہم کرتی ہیں،

وہ قبض بھی پیدا کرتی ہیں، کیوں کہ طاقت ور جسم جس طرح چھونے پر سخت محسوس ہوتا ہے ایسے ہی طاقتور معدہ کے عضلات بھی جب سختی کا شکار ہوتے ہیںتو براز کا قوام سخت ہو جاتا ہے۔براز کو اطباء ایک فضلہ کی حد تک محدود کرنا ناجائز گردانتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اعضائے ہضم کی کیفیت سے ضرور آگاہ کرتا ہے مگر جب ایک حد سے زیادہ سخت عضلاتِ معدہ ہوجاتے ہیں تو پیٹ میں شدید درد اور مروڑ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے،

اس درد اورکرب کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ غیر ضروری طاقتِ عضلات کی وجہ سے معدے کی گرفت اس قدرہوجاتی ہے کہ ریاح (گیس) بھی محصور ہوجاتی ہیں۔ یہی ریاح پیٹ میں درد کی بنیادی وجہ بنتی ہیں۔یہ حالت دردِ قولنج کی ہے۔ اس لیے بہی کو اصلاح کے بغیر مریضانِ قبض استعمال نہیںکرپاتے اور ہماری آبادی میں اسہال کی شکایت 40 فیصد ہے۔یاد رہے کہ معدے کی کمزوری کی علامت تیزابیت کا زیادہ پیدا ہونا ہے

اسی لیے اکثر دافعِ تیزابیت ادویہ اسہال کو روکنے اور اگر اسہال نہ ہوں تو قبض پیدا کرنے کی ذمہ دار ٹھہرتی ہیں۔مثلاً جاپانی پھل تیزابیت کم کرتا ہے مگر چھلکے سمیت کھانا قبض کی کیفیت پیدا کرتا ہے مگر دوپہر کو اس کا کھانا نقصان نہیں دیتا ۔ اس لیے حکماء قدیم نے دوپہر کو کھانے والے پھل اور رات کو کھانے والے پھلوں کے بارے میں بھی آگاہ کیا ہے

لیکن بہی کو ناشتے کے بعد کھانا بہتر قرار دیا ہے کہ یہ جہاں اپنی کیفیت سے کچھ سردی پیدا کرتا ہے ، وہاں اس میں پائے جانے والے حیاتین، معدنیات ، فائبر ز دن بھر کام کرنے کی قوت بھی مہیا کرتے ہیں۔حدیثِ پاک سے بہی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ بہی دل کو طاقت دیتا ہے ، سانس کو خوشبودار بناتا ہے اور سینے سے بوجھ اتارتا ہے۔ ایک اور حدیث کا مفہوم ہے : بہی کھاؤ کیونکہ وہ دل کے دورے کو ٹھیک کر کے سینے سے بوجھ اتاردیتا ہے

۔ ایک تیسری حدیث کے مطابق فرمان ہے کہ رب نے ایسا کوئی نبی نہیں مامور فرمایا جسے بہی نہ کھلایا ہو کیونکہ یہ فرد کی قوت کو چالیس افراد کے برابر کردیتا ہے۔حدیث میں آیا ہے کہ حاملہ عورتوں کو بہی کھلایا کرو کیونکہ یہ دل کی بیماریوں کو ٹھیک کرتا ہے اور لڑکے کو حسین بناتا ہے، غور کیا جائے تو ایسے افراد جو نرَ اولاد کے خواہش مند ہیں

ان کے لیے بہی نہایت قابلِ قدر تحفہ ہے۔تحقیق کے مطابق جب سینے میں بوجھ ہو، دل کی دھڑکن بڑھی ہو مگر معدے کی تیزابیت ظاہر نہ ہوتی ہوتو یہ علامت خون کے گاڑھا ہونے کی ہے۔ ایسے موقع پر ڈاکڑ حضرات پانی پینے کا مشورہ دیتے ہیں مگر بہی ایسا نایاب تحفہ ہے کہ خون کو رقیق کرتا ہے مگر خون کے ذرات جو انجماد کے ذمہ دار ہیں ( پلیٹ لیٹس ) انہیں کم بھی نہیں کرتا۔ اکثر جدید ادویہ خون کے انجماد کو ایسے دور کرتی ہیں کہ خون کے ذرات انجماد کو کم کرتی ہیں،

زیادہ استعمال سے نکسیر، معدے کی جلن وغیرہ کی شکایات پیدا ہوتی ہیں۔بہی کا مزاج سرد اورخشک ہے۔ اپنی سردی سے دل کی غیر فطری حدت ( گرمی ) کو دور کرتا ہے اور اپنی خشکی پیدا کرنے کی کیفیت کی وجہ سے پیاس کو تھوڑا بڑھاتا ہے اور کل کیفیت سردی خشکی کی وجہ سے درد ِ قولنج کے دوران نہیں دیا جاتا۔ اس وجہ سے بہی کو نہار منہ کھانے کا مشورہ دیا جاتا ہے کہ دن بھر چلنے

پھرنے کا موقع اور گرمی بہی کی اس کیفیت کو نا پید کردیتی ہے۔سرد اشیاء مثلاً بہی ، طباشیر(بانس کی جڑ) ، آملہ ، سیب اور اسی طرح چرپری اشیاء مثلاً ادرک کی اصلاح شیرے سے کی جاتی ہے۔ چینی ان اشیاء کو محفوظ کرنے اور ان کی سردی اور گرمی کو اعتدال پر لانے کے لیے بہت بہتر ہے۔ اس سے بہتر خالص شہد ہے مگر یہ نسبتاً قیمتی ہے

اس لیے شازو نادر استعمال کیا جاتا ہے مگر ذیابیطس کے مریضوںکو چینی کی بجائے شہد ہی کا استعمال کرنا چاہیے، شہد تو قوت بھی فراہم کرتا ہے، اشیاء کو سڑنے سے بچانے کے علاوہ ان کے خواص بھی محفوظ رکھتا ہے۔ یا کم ازکم سختی دور کرنے کی غرض سے گرم پانی میں کچھ دیر بہی کو بھگو دیں اور نرم ہونے پر کھائیں۔1۔ سٹرک ایسڈ، ایسکاربک ایسڈ،

میلک ایسڈ : یہ حیاتین نہ صرف خون کی نالیوں کو فاسد چربی سے پاک کرتے ہیں بلکہ ان کی لچک کو بھی بڑھاتے ہیں، دورانِ خون کو بہتر کرتے ہیںاور جلد کی رنگت میں نکھار پیدا کرتے ہیں، خون کے قوام کو اعتدال پر لانے اور پھیپھڑوں کی نالیوں کو صحت بخشتے ہیں۔2۔ فاسفورس، کیلشیم، میگنیشم، فولاد، پوٹاشیم : فاسفورس ہڈیوں میں گودہ اور قوت بخشتی ہے۔ کیلشیم ہڈیوں کو سخت کرتا ہے۔

جبکہ میگنیشیم اس کی اصلاح کرتا ہے یعنی ہڈیوں کو طاقت فراہم کرنے کے علاوہ نرم بھی کرتا ہے، یاد رکھو کہ بغیر میگنیشیم ، کیلشیم کا استعمال ضعیف حضرات کو ہڈی کے درد میں مبتلا کرتا ہے۔ فولاد آکسیجن کو جذب کرنے والے خلیات پیدا تو کرتا ہے مگر خون کو گاڑھا بھی کرتا ہے، پوٹاشیم خون کے قوام کو اعتدال پر لاتا ہے اور خون کو نقصان بھی نہیں دیتا۔n

Comments are closed.