پانی میں ہاتھ رکھنے سے بننے والی جھریاں
اگر آپ کچھ وقت تک اپنے ہاتھوں اور پیروں کو پانی میں ڈبو کر رکھیں تو ان پر عجیب جھریاں نمودار ہو جاتی ہیں۔یعنی ہاتھوں اور پیروں کی ہموار سطح پر عجیب سے لکیریں ابھر آتی ہیں جو کچھ افراد کو بدنما محسوس ہوتی ہیں۔ مگر اس کی وجہ کیا ہے اور ہاتھوں اور پیروں کی جلد پر ہی یہ جھریاں کیوں نمودار ہوتی ہیں؟
جسم کے دیگر اعضا کو جتنی دیر تک پانی میں ڈبو کر رکھیں، ان پر کوئی اثر کیوں نہیں ہوتا۔ ان سوالات نے دہائیوں سے سائنسدانوں کے ذہنوں کو الجھا کر رکھا ہوا ہے اور جوابات کے لیے مسلسل کام بھی کیا
جارہا ہے۔ پہلے تو اس کی وجہ ہی معمہ بنی ہوئی تھی مگر حالیہ دہائیوں میں اس کا مقصد جاننے کی کوشش بھی کی جارہی ہے اور دیکھا جارہا ہے کہ کیا اس سے صحت کے بارے میں بھی کچھ معلوم ہوتا ہے یا نہیں۔ ہاتھوں اور پیروں میں جھریاں پڑنے کی وجہ کیا ہے؟
اس کی سب سے عام وجہ تو سب کو معلوم ہے یعنی کچھ وقت تک پانی میں وقت گزارنا۔ سائنسدانوں کا پہلے خیال تھا کہ پانی جلد کی اوپری تہوں سے گزر کر معمولی سوجن کا باعث بنتا ہے، یہ سوجن بعد میں جلد پر جھریوں کا باعث بنتی ہے۔مگر اب یہ معلوم ہوچکا ہے کہ ایسا ممکنہ طور پر خون کی شریانیں سکڑنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب آپ ہاتھوں یا پیروں کو پانی میں ڈبوتے ہیں تو اعصابی نظام خون کی شریانوں کو سکڑنے کا پیغام بھیجتا ہے۔ اس
پیغام پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جسم ان حصوں کے لیے خون کی فراہمی کردیتا ہے جس سے شریانیں سکڑ جاتی ہیں، جلد ان کے گرد مڑ جاتی ہے جس سے جھریاں بن جاتی ہیں۔یہ تو ابھی واضح نہیں کہ اس عمل کی وجہ کیا ہے مگر سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ انسانی ارتقا کا نتیجہ ہے تاکہ ہم گیلے ہاتھوں کے باوجود چیزوں کو تھامنے پر اپنی گرفت کو مضبوط رکھ سکیں۔ ایک تخمینے کے مطابق گرم پانی
میں جھریاں بننے کا عمل ساڑھے 3 منٹ جبکہ ٹھنڈے پانی میں 10 منٹ میں مکمل ہوسکتا ہے، مجموعی طور پر اوسط دورانیہ 30 منٹ ہے۔مگر ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر کسی فرد کے ہاتھوں یا پیروں کے اعصاب کو نقصان پہنچا ہو تو وہ انہیں جتنی دیر تک مرضی پانی میں ڈبو کر رکھیں، جھریاں نہیں پڑیں گی۔
اب تک سائنسدان کیا کچھ جان چکے ہیں؟ سائنسدان یہ جان چکے ہیں کہ کچھ دیر تک ہاتھوں اور پیروں کو پانی میں ڈبو کر رکھا جائے تو ان حصوں کے لیے خون کی روانی میں نمایاں کمی آتی ہے۔جب یہ جھریاں نمودار ہوجائیں تو ہاتھ یا پیر سفید یا زرد نظر آتے ہیں کیونکہ سطح کے لیے خون کی سپلائی رک جاتی ہے۔ مگر سائنسدانوں کا
سوچنا ہے کہ اگر اعصاب ان جھریوں کو کنٹرول کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے جسم میں آنے والی اس تبدیلی کی کوئی وجہ بھی ہے، اس سے ہمیں کوئی فائدہ ہوتا ہے۔مانچسٹر میٹروپولیٹن یونیورسٹی کے ماہرین نے 2020 میں ایک تجربہ کیا جس میں گیلے ہاتھوں سے پلاسٹک کی اشیا پر گرفت کی مضبوطی کو جانچا گیا۔نتائج سے معلوم ہوا کہ خشک ہاتھوں کے ساتھ لوگوں کو ہاتھ کی گرفت میں
کم طاقت خرچ کرنا پڑی، مگر گیلے ہاتھوں سے گرفت کی مضبوطی گھٹ گئی۔ محققین نے بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جھریاں انگلیوں اور اشیا کے درمیان رگڑ کو بڑھاتی ہے۔مگر اس تحقیق میں ایک سکے جتنے حجم کی چیزوں پر تجربات کیے گئے تھے اور زیادہ بڑے حجم کی اشیا پر یہ رگڑ گرفت مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس سے قبل کچھ سال قبل نیو کیسل یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں
پانی سے جھریاں بنتی ہیں وہ گیلے ماربل کو خشک ہاتھوں والوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر پکڑ سکتے ہیں۔اس تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ اس طرح کی جھریوں سے زمانہ قدیم میں انسانوں کو چشموں یا گیلے مقامات سے غذا اکٹھا کرنے میں مدد ملتی تھی۔ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ کھارے پانی میں ایسی جھریاں بننے کے لیے زیادہ وقت لگتا ہے اور وہ بہت زیادہ نمایاں بھی نہیں ہوتیں۔ یہ سب کچھ سائنسدان جان چکے ہیں مگر اب تک ایسا کوئی
ٹھوس جواب موجود نہیں جس سے معلوم ہو کہ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے اور اس کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔ کیا صحت کے بارے میں کچھ معلوم ہوتا ہے؟ عام طور پر یہ جھریاں بے ضرر ہوتی ہیں اور چند منٹ میں غائب ہوجاتی ہیں مگر ان سے صحت کے بارے میں بھی کچھ اشارے ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر جسم میں پانی کی کمی ہو تو
جلد کی لچک کم ہوجاتی ہے اور پانی میں ڈبوئے بغیر ہی جھریاں بن جاتی ہیں ۔ ایسا بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ذیابیطس ٹائپ ٹو کے مریضوں کے ہاتھوں اور پیروں کو پانی میں ڈبونے کے بعد بننے والی جھریاں بہت زیادہ نمایاں نہیں ہوتیں اور ایسا ہی ہارٹ فیل کے مرض سے متاثر افراد میں بھی دیکھنے میں آیا ہے۔