ہر شعبہ زندگی میں عورتوں کی نمائندگی بکثرت دیکھی جا سکتی ہے
امریکہ میں ہماری ایک گوری پڑوسن کو بیوہ ہوئے پندرہ برس ہو گئے ہیں لیکن اس کے شوہر کی گاڑی آج بھی اس کے پورچ میں کھڑی اس کی یاد دلاتی ہے۔ بیوی کا حوصلہ نہیں پڑتا کہ شوہر کی گاڑی بیچ دے۔ کہتی ہے گاڑی سے اُمید رہتی ہے کہ
شوہر گھر میں میرے پاس ہی ہے۔ شوہر کی نشانی ہے یہ گاڑی مجھے اس کی عادت ہو گئی ہے۔ شوہر میں اگر رب جیسی صفات موجود ہوں تو بیوی کا دل سجدہ ریز رہتا ہے۔ شوہر ظالم یاہر جائی ہو تو بیوی نفرت کرنے لگتی ہے۔یہی معاملہ مرد کے ساتھ بھی ہے۔ بیوی اسے وفا حیا اور محبت دیتی تو ہے اور شوہر اس پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتا ہے۔ اور یہ سب طور طریقے اللہ اپنی الہامی کتابوں میں بتا چکا ہے۔
یہ عورت اور مرد کی جہالت ہے کہ وہ اپنی مذہبی کتابوں کو پس پشت ڈال کر انسانوں کی من گھڑت ترکیبیں اور ٹوٹکے آزمانے سڑکوں پر خوار ہوتے پھر یں۔اور آج نوبت سڑکوں پر مقابلہ بازی تک پہنچ گئی ہے۔ عورت مارچ والیاں امریکی فنڈڈ تنظیمیں عافیہ صدیقی کو رہائی دلائیں گی ؟سانحہ ماڈل‘ ٹائون سانحہ ساہیوال کی عورتوںکا خون بہا دلائیں گی ؟یا عورت کے نام پر گوروں کے فنڈزپر عیش ہی اڑاتی رہیں گی ؟قیام پاکستان سے پہلے روشن خیال طبقہ بھی عورتوں کو تعلیم دلانے کے حق میں نہیں تھا جب
کسی نے ان سے ان کی مخالفت کی وجہ دریافت کیتو سر سید علی خان نے کہا میاں سلطنت تو ہاتھ سے نکل گئی کیا چاہتے ہو کہ عورتیں بھی ہاتھوں سے نکل جائیں۔ سرسید واقعی دور اندیش تھے۔ اب جو مردوں کو شکایت ہے کہ عورتیں خود سر ہو گئی ہیں، پلٹ کر جواب دیتی ہیں، مردوں کے شانہ بشانہ چلنا چاہتی ہیں تو اب یہ سب باتیں اچھی ہوں یا بری لیکن اس کی ذمہ داری تعلیم ہی کے سر جاتی ہے
۔ تعلیم کو اسلامی و اخلاقی اقدار سے الگ کر دیا جائے۔تو پھر اسی قسم کی عورتیں نمودار ہوتی ہیں جو سڑکوں پر برہنہ بینرز اٹھائے گھوم رہی ہیں۔ہندوستان میں شیخ عبداللہ نے جب لڑکیوں کا کالج قائم کیا تو کوئی بھی ’’غیرت مند‘‘ مرد اپنی بچیوں کو اس میں داخل کرانے کے لیے تیار نہ ہوا۔ شیخ عبداللہ بھی اپنے ہٹ کے پکے تھے انہوں نے اپنی تین بچیوں کو کالج میں داخل کرا دیا۔ جس میں سے ایک بچی نے تعلیم سے فارغ ہو کر آزاد خیالی کا وہ چراغ جلایا جس کے بطن سے ترقی پسند تحریک نے اردو ادب میں جنم لیا
۔ یہ رشید جہاں تھیں جن کا ایک افسانہ ’’انگارے‘‘ نامی کتاب میں شامل تھا۔ اس کتاب کی اشاعت پر وہ طوفان بپا ہوا کہ حکومت کو اسے ضبط کرتے ہی بنی۔تو سر سید علی خان نے کہا میاں سلطنت تو ہاتھ سے نکل گئی کیا چاہتے ہو کہ عورتیں بھی ہاتھوں سے نکل جائیں۔ سرسید واقعی دور اندیش تھے۔ اب جو مردوں کو شکایت ہے کہ عورتیں خود سر ہو گئی ہیں، پلٹ کر جواب دیتی ہیں، مردوں کے شانہ بشانہ چلنا چاہتی ہیں تو اب یہ سب باتیں اچھی ہوں یا بری لیکن اس کی ذمہ داری تعلیم ہی کے سر جاتی ہے۔
تعلیم کو اسلامی و اخلاقی اقدار سے الگ کر دیا جائے۔تو پھر اسی قسم کی عورتیں نمودار ہوتی ہیں جو سڑکوں پر برہنہ بینرز اٹھائے گھوم رہی ہیں۔ہندوستان میں شیخ عبداللہ نے جب لڑکیوں کا کالج قائم کیا تو کوئی بھی ’’غیرت مند‘‘ مرد اپنی بچیوں کو اس میں داخل کرانے کے لیے تیار نہ ہوا۔ شیخ عبداللہ بھی اپنے ہٹ کے پکے تھے انہوں نے اپنی تین بچیوں کو کالج میں داخل کرا دیا۔ جس میں سے ایک بچی نے تعلیم سے فارغ ہو کر آزاد خیالی کا وہ چراغ جلایا جس کے بطن سے ترقی پسند تحریک نے اردو ادب میں جنم لیا۔
یہ رشید جہاں تھیں جن کا ایک افسانہ ’’انگارے‘‘ نامی کتاب میں شامل تھا۔ اس کتاب کی اشاعت پر وہ طوفان بپا ہوا کہ حکومت کو اسے ضبط کرتے ہی بنی۔عورتوں میں تعلیم، تہذیب اور شعور کو پروان چڑھانے میں دو نام مولوی ممتاز علی اور محمدی بیگم کے آتے ہیں۔ ’’انارکلی‘‘ ڈرامہ والے امتیاز علی تاج کے والدین، مولوی ممتاز علی بھی حلقۂ سرسید کے اسیر تھے اور ان کی اہلیہ محمدی بیگم وہ بہادر خاتون تھیں جنہوں نے عورتوں کے لیے ایک شاندار رسالہ ’’تہذیب نسواں‘‘ نکالا تھا جس میں اس زمانے کی پڑھی.لکھی خواتین افسانے اور مضامین لکھا کرتی تھیں۔
عورت اور مرد کے تعلقات دو گونہ اصول پر قائم ہو جائیں تو زندگی خوبصورت ہو جاتی ہے۔ مرد عورت سے محبت کرے اور عورت مرد کی اطاعت۔ سارا جھگڑا یہی ہے کہ عورت مرد کی اطاعت سے نکلنا چاہتی ہے اور مرد عورت پر حکومت کا خواہاں رہتا ہے۔ اسی تعلق کو ازسرنو استوار کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے فقط ایک دن عورتوں کے لیے مخصوص کیا ہے۔ پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والا ملک ہے اور آئین پاکستان میں جہاں مردوں کو حقوق دیئے گئے ہیں
وہاں عورتوں کو بھی حقوق فراہم کئے گئے ہیں جن کی واضح مثال ہر شعبہ زندگی میں عورتوں کی نمائندگی بکثرت دیکھی جا سکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی دو بار وزیراعظم رہ چکی ہیں اس کے علاوہ بیرون ملک سفارتکاری میں بھی عورتیں ہیں۔ ایک عام گھریلوخاتون سے لے کر وزیراعظم تک کے حقوق عورتوں کو دیئے گئے ہیں مگر پھر بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان نام نہاد روشن خیال عورتوں کو کیا مسئلہ ہے جو آئے دن اپنے حقوق کا رونا روتی ہیں حالانکہ سب سے زیادہ عورتوں کے حقوق کا خیال اسلام نے رکھا ہے۔