جنت کے حسین مناظر کو بیان کرتی چالیس روایات
جنت ایک مکان ہے کہ اللہ تَعَالٰی نے ایمان والوں کے لیے بنایا ہے، اس میں وہ نعمتیں مہیا کی ہیں جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا، نہ کسی [1] ؎ آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا۔
[2] جو کوئی مثال اس کی تعریف میں دی جائے سمجھانے کے لیے ہے، ورنہ دنیا کی اعلیٰ [3] ؎ سے اعلیٰ شے کو جنت کی کسی چیز کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں ۔وہاں کی کوئی عورت اگر زمین کی طرف جھانکے تو زمین سے آسمان تک روشن ہوجائے اور خوشبو سے بھر جائے اور چاند سورج کی روشنی جاتی رہے اور اُس کا دوپٹا دنیا ومافیہا سے بہتر۔
[4] اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اگر حُور اپنی ہتھیلی زمین و آسمان کے درمیان نکالے تو اس کے حسن کی وجہ سے خلائق فتنہ میں پڑ جائیں اور اگر اپنا دوپٹا ظاہر کرے تو اسکی خوبصورتی کے آگے آفتاب ایسا ہو جائے جیسے آفتاب کے سامنے چراغ [5] اور اگر جنت کی کوئی ناخن بھَر چیز دنیا میں ظاہر ہو تو تمام آسمان و زمین اُس سے آراستہ ہو جائیں اور اگرجنتی کا کنگن ظاہر ہو تو آفتاب کی روشنی مٹادے،جیسے آفتاب ستاروں کی روشنی مٹا دیتا ہے
۔ [6] جنت کی اتنی جگہ جس میں کوڑا[7] رکھ سکیں دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ [8] جنت کتنی وسیع ہے، اس کو اللہ و رسول ( عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) ہی جانیں ، اِجمالی بیان یہ ہے کہ اس میں ۱۰۰سو درجے ہیں ۔ ہر دو درجوں میں وہ مسافت ہے، جو آسمان و زمین کے درمیان ہے۔ [9] رہا یہ کہ خود اُس درجہ کی کیا مسافت ہے، اس کے متعلق کوئی روایت خیال میں نہیں ، البتہ ایک حدیث ’’ترمذی‘‘ کی یہ ہے: ’’کہ اگر تمام عالم ایک درجہ میں جمع ہو تو سب کے لیے وسیع ہے۔ ‘‘[10] جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ میں ۱۰۰سو برس تک تیز گھوڑے پر سوار چلتا رہے
اورختم نہ ہو۔[11] جنت کے دروازے اتنے وسیع ہوں گے کہ ایک بازو سے دوسرے تک تیز گھوڑے کی ستّر برس کی راہ ہوگی[12] پھر بھی جانے والوں کی وہ کثرت ہوگی کہ مونڈھے سے مونڈھا چِھلتا ہوگا[13]، بلکہ بھیڑ کی وجہ سے دروازہ چَرچَرانے لگے گا۔ [14] اس میں قسم قسم کے جواہر کے محل ہیں ، ایسے صاف و شفاف کہ اندر کا حصہ باہر سے اور باہر کا اندر سے دکھائی دے۔[15] جنت کی دیواریں سونے اور چاندی کی اینٹوں اور مُشک کے گارے سے بنی ہیں [16]، ایک اینٹ سونے کی، ایک چاندی کی، زمین زعفران کی، کنکریوں کی جگہ موتی اور یاقوت۔[17]
اور ایک روایت میں ہے کہ جنتِ عدن کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے، ایک یاقوتِ سرخ کی، ایک زَبَرْجَد سبز کی، اور مشک کا گارا ہے اورگھاس کی جگہ زعفران ہے، موتی کی کنکریاں ، عنبر کی مٹی[18]، جنت میں ایک ایک موتی کا خیمہ ہوگا جس کی بلندی ساٹھ میل۔[19] جنت میں چار دریا ہیں ، ایک پانی کا، دوسرا دودھ کا، تیسرا شہد کا، چوتھا شراب کا، پھر اِن سے نہریں نکل کر ہر ایک کے مکان میں جاری ہیں ۔[20] وہاں کی نہریں زمین کھود کر نہیں بہتیں ، بلکہ زمین کے اوپر اوپر رواں ہیں ،نہروں کا ایک کنارہ موتی کا، دوسرا یاقوت کا اور نہروں کی زمین خالص مشک کی[21]، وہاں کی شراب دنیا کی سی نہیں
جس میں بدبُو اور کڑواہٹ اور نشہ ہوتا ہے اور پینے والے بے عقل ہو جاتے ہیں ، آپے سے باہر ہو کر بیہودہ بکتے ہیں ، وہ پاک شراب اِن سب باتوں سے پاک و منزَّہ ہے۔[22]جنتیوں کو جنت میں ہر قسم کے لذیذ سے لذیذ کھانے ملیں گے، جو چاہیں گے فوراً ان کے سامنے موجود ہو گا[23]، اگر کسی پرند کو دیکھ کر اس کے گوشت کھانے کو جی ہو تو اُسی وقت بُھنا ہوا اُن کے پاس آجائے گا[24]، اگر پانی وغیرہ کی خواہش ہو تو کوزے خود ہاتھ میں آجائیں گے، ان میں ٹھیک اندازے کے موافق پانی، دودھ، شراب، شہد ہوگا کہ ان کی خواہش سے ایک قطرہ کم نہ زیادہ،بعد پینے کے خودبخود جہاں سے آئے تھے چلے جائیں گے۔
[25] وہاں نجاست، گندگی، پاخانہ، پیشاب، تھوک، رینٹھ، کان کا میل، بدن کا میل اصلاً نہ ہوں گے، ایک خوشبو دار فرحت بخش ڈکار آئے گی، خوشبو دار فرحت بخش پسینہ نکلے گا، سب کھانا ہضم ہوجائے گا اور ڈکا ر اور پسینے سے مشک کی خوشبو نکلے گی۔[26] ہر شخص کو ۱۰۰سو آدمیوں کے کھانے، پینے، جماع کی طاقت دی جائے گی۔[27] ہر وقت زبان سے تسبیح و تکبیر بہ قصد اور بلا قصد مثل سانس کے جاری ہوگی۔[28] کم سے کم ہر شخص کے سرہانے
د۱۰س ہزار خادم کھڑے ہونگے، خادموں میں ہر ایک کے ایک ہاتھ میں چاندی کا پیالہ ہوگا اور دوسرے ہاتھ میں سونے کا اور ہر پیالے میں نئے نئے رنگ کی نعمت ہو گی[29]، جتنا کھاتا جائے گا لذت میں کمی نہ ہوگی بلکہ زیادتی ہوگی ، ہر نوالے میں ۷۰ ستّرمزے ہوں گے، ہر مزہ دوسرے سے ممتاز، وہ معاً محسوس ہوں گے، ایک کا احساس دوسرے سے مانع[30] نہ ہوگا، جنتیوں کے نہ لباس پرانے پڑیں گے، نہ ان کی جوانی فنا ہوگی۔[31] پہلا گروہ جو جنت میں جائے گا،اُن کے چہرے ایسے روشن ہوں گے
جیسے چودہویں رات کا چاند اور دوسرا گروہ جیسے کوئی نہایت روشن ستارہ، جنتی سب ایک دل ہوں گے، ان کے آپس میں کوئی اختلاف و بغض نہ ہوگا، ان میں ہر ایک کو حورِ عِین میں کم سے کم دو بیبیاں ایسی ملیں گی کہ ستّر ستّر جوڑے پہنے ہوں گی، پھر بھی ان لباسوں اور گوشت کے باہر سے ان کی پنڈلیوں کا مغز دکھائی دے گا، جیسے سفید شیشے میں شرابِ سُرخ دکھائی دیتی ہے[32] اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں یاقوت سے تشبیہ دی اور یاقوت میں سوراخ کرکے اگر ڈورا ڈالا جائے تو ضرور باہر سے دکھائی دے گا۔[33] آدمی اپنے چہرے کو اس کے رُخسار میں آئینہ سے بھی زیادہ صاف دیکھے گا اور اس پر ادنیٰ درجہ کا جو موتی ہوگا، وہ ایسا ہو گا کہ مشرق سے مغرب تک روشن کر دے۔[34] اور ایک روایت میں ہے کہ مرد اپنا ہاتھ اس کے شانوں کے درمیان رکھے گا
تو سینہ کی طرف سے کپڑے اور جلد اور گوشت کے باہر سے دکھائی دے گا۔[35] اگر جنت کا کپڑا دنیا میں پہنا جائے تو جو دیکھے بے ہوش ہو جائے، اور لوگوں کی نگا ہیں اس کا تحمل نہ کرسکیں [36] ، مرد جب اس کے پاس جائے گا اسے ہر بار کوآری[37] پائے گا، مگر اس کی وجہ سے مرد و عورت کسی کو کوئی تکلیف نہ ہوگی[38] ، اگر کوئی حور سمندر میں تھوک دے تو اُس کے تھوک کی شیرینی کی وجہ سے سمندر شیریں ہوجائے۔[39] اور ایک روایت ہے کہ
اگر جنت کی عورت سات سمندروں میں تھوکے تو وہ شہد سے زیادہ شیریں ہو جائیں ۔[40] جب کوئی بندہ جنت میں جائے گا تو اس کے سرہانے اور پائنتی[41] دو حوریں نہایت اچھی آواز سے گائیں گی، مگر اُن کا گانا یہ شیطانی مزامیر نہیں بلکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی حمد و پاکی ہوگا[42] ، وہ ایسی خوش گُلو ہوں گی کہ مخلوق نے ویسی آواز کبھی نہ سنی ہوگی اور یہ بھی گائیں گی:کہ ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں ، کبھی نہ مریں گے، ہم چَین والیاں ہیں ، کبھی تکلیف میں نہ پڑیں گے، ہم راضی ہیں ناراض نہ ہوں گے، مبارک باد اس کے لیے جو ہمارا اور ہم اس کے ہوں
۔[43] سر کے بال اور پلکوں اور بھَووں کے سوا جنتی کے بدن پر کہیں بال نہ ہوں گے، سب بے ریش ہوں گے، سُرمگیں آنکھیں ، تیس برس کی عمر کے معلوم ہوں گے[44]، کبھی اس سے زیادہ معلوم نہ ہوں گے۔[45] ادنیٰ جنتی کے لیے اَ۸۰سّی ہزار خادم اور ۷۲بہتّربیبیاں ہوں گی اور اُن کو ایسے تاج ملیں گے کہ اس میں کا ادنیٰ موتی مشرق و مغرب کے درمیان روشن کر دے[46] اور اگر مسلمان اولاد کی خواہش کرے تو اس کا حمل اور وضع[47] اور پوری عمر (یعنی تیس سال کی)، خواہش کرتے ہی ایک ساعت میں ہو جائے گی۔[48] جنت میں نیند نہیں ،
کہ نیند ایک قسم کی موت ہے اور جنت میں موت نہیں ۔[49] جنتی جب جنت میں جائیں گےہر ایک اپنے اعمال کی مقدار سے مرتبہ پائے گا اور اس کے فضل کی حد نہیں ۔ پھر اُنھیں دنیا کی ایک ہفتہ کی مقدار کے بعد اجازت دی جائے گی کہ اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّ کی زیارت کریں اور عرشِ الٰہی ظاہر ہوگا اور رب عَزَّوَجَلَّ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں تجلّی فرمائے گا اور ان جنتیوں کے لیے منبر بچھائے جائیں گے، نورکے منبر، موتی کے منبر، یاقوت کے منبر، زَبرجَد کے منبر، سونے کے منبر، چاندی کے منبر اور اُن میں کا ادنیٰ مشک و کافور کے ٹیلے پر بیٹھے گا
اور اُن میں ادنیٰ کوئی نہیں ، اپنے گمان میں کرسی والوں کو کچھ اپنے سے بڑھ کر نہ سمجھیں گے اور خدا کا دیدار ایسا صاف ہوگا جیسے آفتاب اور چودھویں رات کے چاند کو ہر ایک اپنی اپنی جگہ سے دیکھتا ہے، کہ ایک کا دیکھنا دوسرے کے لیے مانع نہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ ہر ایک پر تجلّی فرمائے گا، ان میں سے کسی کو فرمائے گا: اے فلاں بن فلاں !تجھے یاد ہے، جس دن تُو نے ایسا ایسا کیا تھا۔۔۔؟! دنیا کے بعض مَعاصی یاد دلائے گا، بندہ عرض کرے گا: تو اے رب! کیا تُو نے مجھے بخش نہ دیا؟ فرمائے گا: ہاں ! میری مغفرت کی وسعت ہی کی وجہ سے تُو اِس مرتبہ کو پہنچا،
وہ سب اسی حالت میں ہونگے کہ اَبر چھائے گا اور اُن پر خوشبو برسائے گا، کہ اُس کی سی خوشبو ان لوگوں نے کبھی نہ پائی تھی اور اللہ عَزَّوَجَلَّ فرمائے گا: کہ جاؤ اُس کی طرف جو میں نے تمہارے لیے عزت تیار کر رکھی ہے، جو چاہو لو، پھر لوگ ایک بازار میں جائیں گے جسے ملائکہ گھیرے ہوئے ہیں ، اس میں وہ چیزیں ہوں گی کہ ان کی مثل نہ آنکھوں نے دیکھی، نہ کانوں نے سنی، نہ قلوب پر ان کا خطرہ گزرا، اس میں سے جو چاہیں گے، اُن کے ساتھ کر دی جائے گی اور خریدوفروخت نہ ہوگی اور جنتی اس بازار میں باہم ملیں گے،
چھوٹے مرتبہ والا بڑے مرتبہ والے کو دیکھے گا، اس کا لباس پسند کرے گا،ہنوز گفتگو ختم بھی نہ ہوگی کہ خیال کرے گا، میرا لباس اُس سے اچھا ہے اور یہ اس وجہ سے کہ جنت میں کسی کے لیے غم نہیں ، پھر وہاں سے اپنے اپنے مکانوں کو واپس آئیں گے۔ اُن کی بیبیاں استقبال کریں گی اور مبارکباد دے کر کہیں گی کہ آپ واپس ہوئے اور آپ کا جمال اس سے بہت زائد ہے کہ ہمارے پاس سے آپ گئے تھے، جواب دیں گے کہ پروردگار جبّار کے حضور بیٹھنا ہمیں نصیب ہوا تو ہمیں ایسا ہی ہوجانا سزاوار تھا۔[50] جنتی باہم ملنا چاہیں گے تو ایک کا تخت دوسرے کے پاس چلا جائے گا۔
[51] اور ایک روایت میں ہے کہ ان کے پاس نہایت اعلیٰ درجہ کی سواریاں اور گھوڑے لائے جائیں گے اور ان پر سوار ہو کر جہاں چاہیں گے جائیں گے۔ [52] سب سے کم درجہ کا جو جنتی ہےاس کے باغات اور بیبیاں اور نعیم و خدّام اور تخت ہزار برس کی مسافت تک ہوں گے اور اُن میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک سب میں معزز وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجہِ کریم کے دیدار سے ہر صبح و شام مشرّف ہوگا۔ [53] جب جنتی جنت میں جا لیں گے اللہ عَزَّوَجَلَّ اُن سے فرمائے گا:
کچھ اور چاہتے ہو جو تم کو دوں ؟ عرض کریں گے: تُو نے ہمارے مونھ روشن کیے، جنت میں داخل کیا، جہنم سے نجات دی، اس وقت پردہ کہ مخلوق پر تھا اُٹھ جائے گا تو دیدارِ الٰہی سے بڑھ کر انھیں کوئی چیز نہ ملی ہوگی