بد نصیبی کی پہچان چار چیزیں، مزید جانیں
آج ایک ایسی معلومات آپ کو بتائیں گے جو کہ بہت ہی اہم ہے ۔ حضرت حسن بصری ؒ نے بلند آواز میں فرمایا: لوگو! اللہ تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہو، دروازہ ضرور کھلتا ہے۔
ایک بڑھیا نے سناتو بولی : اے حسن ! کیا اللہ تعالیٰ کا دروزاہ بند بھی ہوتا ہے؟ حسن بصری ؒ یہ بات سن کر غش کھا کر گر پڑے۔ او ر فرمایا اے اللہ! یہ بڑھیا تجھے سے زیادہ جانتی ہے۔ سب سے برا کھیل وہ ہےجو کسی کے خلوص سے کھیلا جائے۔ اللہ جب بہترین سے نوازتا ہے۔ تو پہلے بدترین سے نوزاتا ہے۔
تو پہلے بدترین سے گزارتا ہے۔ اگر آدمی کی نیت درست ہو اور وہ کوشش شروع کر دے تو اللہ تعالیٰ کی مدد آجایا کرتی ہے۔ میں نے بندگی کا طریقہ پرندوں سے سیکھا۔ جن کے گھونسلے طوفانی راتوںمیں تباہ ہوجاتےہیں۔ مگر صبح ہوتے ہی وہ شکایتوں کےبجائے اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اناؤں، نفرتوں، خود غرضیوں کے ٹھہرے پانی میں محبت گھولنے والے پڑے ۔
درویش ہوتے ہیں۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایاکہ چار چیزیں بد نصیبی کی پہچان ہیں۔ آنکھوں کا خشک ہونا یعنی کہ اللہ کے خوف سے کسی وقت بھی آنسو نہ ٹپکے۔ دل کا سخت ہونا یعنی کہ آخرت کےلیےیا کسی دوسرے لیے کسی وقت بھی نرم نہ پڑے ۔ امیدوں کا لمبا ہونا، اور دنیا کی لالچ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نےفرمایا: کسی کو دکھ دینے والا کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کسی کی بے بسی پر مت ہنسو،
کل یہ وقت تم پر بھی آسکتا ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کسی کی آنکھ تمہاری وجہ سے غم نہ ہو کیونکہ تمہیں اس کے ہر آنسو کا قرض چکانا ہوگا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ شیر خدا نے فرمایا: مظلوم اور نمازی کی آہ سے ڈرو، کیونکہ آہ کسی کی بھی ہو عرش کو چیر کر اللہ کےپاس جاتی ہے۔ ہوائیں ، موسموں کا رخ بدل سکتی ہیں
۔ اور دعائیں مصیبتوں کا کچھ باتوں کا جواب صرف خاموشی ہوتی ہے۔ اور خاموشی بہت خوبصورت جواب ہے۔