بنی اسرائیل کے ایک حسین عابد کا واقعہ
بنی اسرایل میں ایک عابد شخص تھا جسے اللہ تعالی نے ظاہری حسن و جمال بھی دے رکھا تھا۔اپنے ہاتھ سے زنبیل بناتا اور فروخت کر کے بسر اوقات پوری کرتا تھا۔ایک دن وہ بادشاہ کے دروازے پر سے گزرا بادشاہ کی بیوی کی خادمہ نے دیکھ لیا۔
جا کر ملکہ سے کہنے لگی کہ یہاں ایک ایسا حسین شخص ہے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ملکہ نے حکم دیا اسے میرے پاس لے آو اسے لانا گیا تو دیکھتے ہی فدا ہو گی۔کہنے لگی زنبیلیں پھینک دےاور یہ چادر سنبھال۔باندی سے کہا تیل اور خوشبو وغیرہ لاؤ اور ہم اس سے اپنی حاجت برابری کریں گے
اور عابد سے کہنے لگیںکہ اب تجھے زنبیلیں بیچنے کی کوی ضرورت نہیں رہے گی عابد بارہا انکار کرتا بار بار انکار کرتا رہا۔تو ملکہ بولی کہ اگر تو یہ کام نہیں کرے گا تو یہاں سے جا نہیں پائے گا اور دروازہ بند کرنے کا حکم دیاعابد نے جب یہ صورتحال دیکھی تو بولا کہ محل کے اوپر کوئی ضروت کی جگہ ہے کہنے لگے ہاں باندی کو حکم دیا کہ اسکے لیے پانی وغیرہ
اوپر لے جاؤ۔یہ اوپر چھت کے ایک کونے میں گیا دیکھا کہ محل تو بہت اونچا ہے۔کوئی ایسی چیز نہیں جس سے لٹک کر اتر جائے آخر اپنے نفس کو خطاب اور عتاب کرنے لگا کہ تو ستر برس سے اپنے رب کریم کی رضا کا طلبگار ہوا ہے ۔رات دن اسی حرص میں گزرتے ہیں ۔تجھ پر ایک ایسی شام آئی ہے جو تمام محنت کو ضائع کر دے گی اللہ تجھ سے بڑا کوئی خائن نہ ہو گا
۔اگر یہ شام تیرے عمل کو فاسد کر دے گی تو اللہ کو کیا منہ دکھاے گا۔غرض اسی طرح اپنے آپ کو خطاب و عتاب کرتا رہا۔حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ اسکے بعد جب اس نے بلندی سے کود جانے کا تہیہ کر لیا تو اللہ تعالی نے حضرت جبرائیل ؑکو ندا دیانہوں نے لبیک کہہ کر جواب دیا ۔ارشاد ہوا میرا بندہ میری معصیت اور ناراضی سے بچنے کے لیے جان کی بازی لگا رہا ہے
جا اپنے پروں سے اسکو تھام لے اور اسے ذرا بھی تکلیف نہ ہونے پائے۔چنانچہ حضرت جبرایلؑ نے اپنا ایک پر پھیلایا اسے یوں پکڑ کر نیچے اتارا ۔فرمایا عابد یہاں سے سیدھا اپنے گھر گیا۔زنبیلیں وغیرہ وہیں رہ گی تھی بیوی کہنے لگی زنبیلوں کی قیمت کہاں ہے کہنے لگا آج تو انکا کچھ نہیں ملا کہنے لگی پھر افطار کیسے کریں گے۔عورت نے انہیں برتن میں رکھا
اور خاوند کے پاس آ کر کہنے لگی تیرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ خوشحالی کا معاملہ تیرے بلند درجہ کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے لہذا تو اللہ سے دعا مانگ کے ہماری باقی کی زندگی خوشحال اور فراخی میں گزرے۔عابد کہنے لگا کہ یہی حال اچھا ہے لیکن عورت کا اصرار بڑھتا گیا حتی کہ عابد نے دعا مانگنے کی حامی بھر لی۔آدھی رات کو اٹھ کر نماز پڑھی اور دعا مانگنے لگا کہ اللہ تعالی میری بیوی کا تقاضا ہے کہ اس کی باقی عمر خوشحالی اور فراخی عطا فرما ۔اتنے میں چھت پھٹ پڑی
اور یاقوت اور موتیوں سے بھری ہوی تشتری نیچے آئی جس سے تمام گھر چمک گیا۔عابد نے بیوی کا پاوں ہلایا کہ اٹھ جا اور جو مانگتی تھی سنبھال لے۔عورت بیدار ہو کر کہنے لگیعابد بولا آج کی رات تو یوں ہی ذرا صبر سے کاٹ لیں گے پھر کہنے لگا اٹھ کر تنور میں آگ جلا دے ہمسائے ہمارے تنور میں آگ نہیں دیکھے گے تو نامعلوم کیا کچھ خیالات دوڑایں گے
۔بیوں نے اٹھ کر تنور میں آگ جلای۔خود واپس آ کر بیٹھ گی۔ایک پڑوسن آگ لینے آئی پوچھا تو جواب ملا کہ خود تنور سے لے لے ۔یہ عورت آگ لے کر واپس ہونے لگی تو گھروالی سے کہنے لگی بہن تو یہاں بیٹھی باتیں کر رہی ہے اور ادھر تیری روٹیاں پک چکی ہیں بلکہ جلنے کو ہیں ۔عورت نے اٹھ کر دیکھا تو تنور بہترین روٹیوں سے بھرا پڑا تھا