یہ حدیث معلوم ہونی چاہیئے

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو عورت اس حالت میں فوت ہو کہ اس کا خاوند اس سے راضی ہے یہ عورت جنتی ہے۔اطاعت والا کام اگر اس نے نہیں کیا وہ سمجھے کہ

میں تہجد گذار ہوں اسے یہ حدیث یاد رکھنی چاہئے صحیح الجامع کی روایت ہے 660 رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سلسلہ صحیحہ کی روایت ہے 288 دو ایسے ہیںجن کی نماز قبول ہونا تودور کی بات ہے سر سے بھی اوپر نہیں جاتی ۔غلام اپنے آقاؤں سے دوڑ گیا ہے جب تک واپس نہیں آتا اس کی نماز تو قبول ہی نہیں ہے

اور ایسی عورت جو نافرمان ہے اپنے خاوند کی جب تک پلٹ کر نہیں آجاتی اس کی نماز اس کے سر سے بھی اوپر نہیں جائے گی تو پہلا حق خاوند کا یہ ہے کہ اس کی اطاعت کرے کہاں جا کر مسائل بنتے ہیں لو میں پھر اپنے بہن بھائی چھوڑ دوں کوئی بھی نہیں کہتا چھوڑ دو نہ چھوڑنے چاہئیں بلکہ بہن بھائیوں سے اچھا تعلق رکھنا چاہئے اکرام کرنا چاہئے عزت دینی چاہئے اللہ کے رسول کے پاس تو حالہ تشریف لائیں

جو سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن تھیں اللہ کے رسول خوشی سے کہتے ہیں اللھم حالہ حالہ آگئی ہیںاحترام کیا ان کا کون کہتا ہے لیکن ضد جہاں آئے گیوہاں گھر برباد ہوں گے رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا گیا ای الناس اعظم حقا علی الرجل سب سے زیادہ مرد پر حق کس کا ہے فرمایا اس کی ماں کا حق ہے عورت پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے فرمایا اس کے خاوند کا جب شریعت یہ کہہ رہی ہے کہ عورت پر سب سے زیادہ خاوند کا حق ہے

آپ کون ہیں جو کہیں کہمیں آپ کا حق تو نہیں مانوں گی یہاں میں اپنے بہن بھائی کو رکھوں گی وہ کوئی گناہ کررہا ہے بہن کو بھی رکھو بھائی کو بھی لیکن سب سے زیادہ تجھ پر حق تیرے خاوند کا ہے ۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں اور حفصہ روزے سے تھیں کہ ہمارے سامنے کھانا پیش کیا گیاجس کی ہمیں طلب بھی تھی

ہم نے اس سے کھا لیا اتنےمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے، حضرت حفصہ گفتگو میں مجھ سے سبقت لے گئیں اور (ایسا کیوں نہ ہوتا) وہ اپنے باپ کی بیٹی تھیں (یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح جری تھیں) کہنے لگیں : یا رسول اﷲ! ہم دونوں نے روزہ رکھا ہوا تھاپھر ہمارے پاس کھانا آیا جس کی ہمیں تمنا تھی تو ہم نے اس سے کھا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

کسی دوسرے دن اس کی قضاء کر لینا۔حضرت قیس بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حفصہ بنت عمر رضی اﷲ عنہما کو طلاق دی، پس آپ کے ماموں قدامہ اور عثمان جو کہ مظعون کے بیٹے ہیں آپ کو ملنے آئے تو آپ رو پڑیں اور کہا: خدا کی قسم! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے غصہ اور غضب کی وجہ سے طلاق نہیں دی،

اسی دوران حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ادھر تشریف لائے اور فرمایا : جبریل علیہ السلام نے مجھے کہا ہے : آپ حفصہ کی طرف رجوع کر لیں۔ بے شک وہ بہت زیادہ روزے رکھنے اور قیام کرنے والی ہیں اور بے شک وہ جنت میں بھی آپ کی اہلیہ ہیں۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین

Comments are closed.