میں رات میں قبرستان گئی تاکہ اس کے زیورات اتار لوں

مجھے اس کا رونا بہت عجیب لگتا ہے حالانکہ چہرے سے وہ کافی گرمی لگ رہی تھی۔ایک دن مجھ سے رہا نہیں گیا میں نے اس سے پوچھ لیا اگر آپ برا نہ مانے تو مجھے اپنا دکھ بتا سکتی ہیں آپ یہاں کیوں بیٹھی ہیں کیا میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں

میری بات پر اس نے آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا اس کی نظروں میں بے پناہ غم اور ندامت کا احساس تھا میں نے دیکھا رو رو کر اس کی آنکھیں لال ہو چکی تھی تمہیں کیا بتاؤں بیٹی میں بہت بری ہوں اگر تم میری کہانی سننا چاہتی ہو تو تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھ جاؤ میرا بھی دل ہلکا ہو جائے گا

اس عورت کے ساتھ قبرستان میں بیٹھنا مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا میں نے اسے اپنے گھر چلے کی دعوت دی جسے اس نے تھوڑے درد کے بعد قبول کرلے اسلام کی ماری تھی شاید سہارا چاہتی تھی میں نے اسے چائے پلائی پھر جب اس کے حواس بحال ہوئے تو اس نے مجھے اپنی کہانی سنائی میرا نام آمنہ ہے میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئیں

جہاں عورتوں کا نسل در نسل پیشہ یہی تھا کہ وہ مر جانے والی خواتین کو غسل دیتی اور انہیں کفن وغیرہ پہناتے گاؤں میں تو کوئی بھی کام شروع کر لیا ہے نہیں کرتا تھا لیکن شہر میں ہماری اچھی خاصی کمائی ہو جاتی کیونکہ یہاں بھر ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی عورت مر جاتی اور لوگ ہمیں جانتے پہچانتے تھے۔اسی لئے ہمیں اپنے گھر لے جاتے 34 ہزار روپے ہمارے ہاتھ پر رکھے اور ہمیں غسل اور کفن کے انتظامات ہما دیتے

ہم لوگوں کو اس کام کی عادت پڑ چکی تھی اس لیے کسی قسم کا ڈر یا کوئی وحشت نہیں ہوتی تھی چار بجے میں اپنے کام سے فارغ ہو کر بیٹھی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی سلطانہ نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک پچاس سالہ عورت تھی جس کا قد اچھا خاصہ تھا اور صحت بھی قابل رشک تھی کہنے لگی مجھے تم سے کوئی کام ہے جلدی میرے گھر چلو میں حیران ہوئی کہ اتنی عزت میں کسی کو مجھ سے کیا کام ہوسکتا ہے

میں نے چادر پہنی اور اس کے ساتھ چل پڑی وہ بہت اچھی لگ رہی تھی ایک بڑے سے بنگلے کے سامنے جا کر وہ ابھی وہ پیدل ہی آئی تھی بلکہ اس کے گھر کے باہر دو گاڑیاں کھڑی تھی مجھے اس بات پر سخت حیرت ہوئی مجھے بڑی رازداری سے اندر لے کر گئی بولی دیکھو فوت ہو گئی ہے میں اس کے باپ کو نہیں جانتی میرا بیٹا ایک لاوارث لڑکی کو بہا کر لے آیا تھا تاہم اس سے بہت محبت بھی کرتا تھا مگر کیا کرے

یہ بیچاری تو اپنی اولاد کی تکلیف کو غصہ نہیں سکیں یہ حملہ ہے مگر اس کی طرح ہے مگر اس کی چاند تکلیف سے چلی گئی ہے حملہ آور کو زیادہ دیر تک گھر میں رکھنا اچھی بات نہیں ہے ۔تم اسی جلدی سے غسل دے دو تاکہ میں اسے مختصرا رسومات کے بعد دفن کر دو مجھے تو اس لحاظ سے بھی ڈر لگ رہا ہے تم نے سنا ہے حملہ آور تھے جب میں جاتی ہیں تو

وہ ڈان بن جاتے ہیں اس عورت کی توہمات سن کر میں تو حیران رہ گئی بلکہ ایسی کوئی بھی بات سچ نہیں ہوتی یہ لوگوں کی کی بنائی ہوئی باتیں ہیں میں نے ایک نظر اس عورت کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں پر کسی قسم کے کوئی تاثرات نہیں تھے میں حیران تھی کہ اپنی بہو کے مرنے پر کوئی عورت اتنا پرسکون کیسے رہ سکتی ہے وہ بھی جب اس کے پیٹ میں اپنا پوتا ہوں پھر میں نے غسل کی تیاریاں شروع کر دی

تختی پر لاش کو لٹکایا گیا یہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا کہ وہ ایک جوان اور خوبصورت تھی اتنی بھرپور جوانی میں مر جانا اپنے آپ میں بہت بڑا سانحہ ہے بلکہ ہاتھوں میں ہلکی سی حرکت محسوس ہوئی مجھے شخص ہوا تو میں نے اس کی ناک کے سامنے ہاتھ رکھ کر دیکھا اس کی سانس اور نفس کی تو اسے اشارہ مل گیا کہ وہ عورت مری نہیں ہے

بلکہ صدقے کی حالت میں ہے جب انسان کی ظاہری حالت ایسی ہوتی ہے جیسے کہ مردے کی لیکن اصل میں وہ زندہ ہوتا ہے میں نے جب یہ سب دیکھا تو میں الجھن کا شکار ہوگئی۔غسل دیتے دیتے رہ کر میں نے اس عورت کی ساس کو بلایا بات سنئے یہ تو مجھے زندہ لگ رہی ہیں آپ کسی ڈاکٹر کو بلائیے ہو سکتا ہے کہ ابھی ان کی کچھ زندگی باقی ہو اور تم میری بات سن کر خاموش ہو گی نہیں تمہیں مجھے مشورہ دینے کی ضرورت نہیں تمہیں جو کہا ہے وہی کرو اس کی بات سن کر میں سمجھ گئی کہ یہ کوئی سوچی سمجھی

سازش ہے ورنہ جوان عورت کی موت کے منہ میں نہیں جا سکتی میں نے اسے غسل دینے اور کفن بنانے سے انکار کردیا تب اس کی ساس جلدی سے دوسرے کمرے میں گئیں اور لال رنگ کی ایک تحریر اٹھائے جس میں پانچ ہزار کے نوٹ تھے اس وقت مجھے پیسوں کی شدید ضرورت تھی

پھر پیسوں سے تو کوئی بھی بکتا ہے میرا ایمان بھی تکمیل کا کیا میں اس عورت کی بات سمجھ گئی میں نے وہ پیسے اپنی جیب میں رکھ لئے یہ پیسے میں اپنے داماد کو دینا چاہتی تھی جو کب سے مجھ سے موٹرسائیکل مانگ رہا تھا اسی وجہ سے میری بیٹی کے گھر میں بھی سکون نہ تھا تھا پیسے لے کر مجھے اطمینان ہو گیا کہ میں اپنی بیٹی کو پیسے دے دوں گی تو اس کا مسئلہ حل ہوجائے گا میں دوبارہ اس عورت کو غسل دینے لگیں مگر میرا دلبر جلسہ ہورہا تھا

۔میں نے اسے غسل دینے کے بعد کفن بنا دیا مگر میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا مگر زیادہ دیر وہا رہا نہیں رکیں اور گھر سے نکل آئے اس گھر کے قریب ایک قبرستان تھا جن لوگوں کا خاندانی قبرستان رکھتا تھا میں اس سے وحشت سے دیکھتی گھر آگئی گھر آگئے مگر مجھے بستر پر لیٹے نیند نہیں آ رہی تھی تھوڑی دیر کے بعد میری بیٹی آئی میں نے اسے بوجھل دل سے خوشخبری سنائی ک

تمہارے پچاس ہزار روپے کا بندوبست ہوگیا ہے اب تم اپنے شوہر کو دے دینا تاکہ وہ موٹر سائیکل لے لے اور تمہاری بھی زندگی آسان ہو وہ بولی باجی آپ اتنے پیسے کہاں سے لائے ہیں میں نے اسے حقیقت نہیں بتائی وہ خوشی خوشی پیسے لے کر چلی گئی لیکن پھر شام کو جب میرا شاہراہڈیرہ عسمیل فروش اور لالچی تھا اسے ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا میں نے جب اسے یہ بات بتائی تو باتوں باتوں میں

میں نے اس عورت کے زیورات کا ذکر بھی کر دیا کہ عورت نے اچھی خاصی سونے کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی اس کے ساتھ انہیں نکال نہیں پائی اور اس کے ساتھ ہیں فلم بنانے کا کہا تھا عورت نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کو دکھ نہیں دینا چاہتے کہ اس کی بیوی مر گئی ہے اس لیے اس لیے اسے کہو گی کہ تمہاری بیوی بھاگ گئی ہے میں اسے دفنانا چاہتی ہوں۔

تاکہ میرے بیٹے کے دل میں غم کی جگہ حصہ لے لے اور خود دوسری شادی کرنے کے لیے رضا مند ہو جائے میں اپنے دل کو تسلی دے رہی تھی کہ اس عورت نے اپنے بیٹے کی بھلائی کے لیے یہ سب کیا ہے اپنی بیٹی کو غم میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی ہوں کی تو نماز جاتی ہے کس کا بیٹا ساری عمر ایک عورت کے

غم میں بیٹھ رہے اس کے بعد بھی مجھے اطمینان نہیں ہو رہا تھا لیکن میں وہ نے ایک نئی کریں میلادی کہنے لگا بس یوں تو ہمیں نکالیں پڑھیں گے ورنہ اس ملک کو بھی اس شعبہ میں سے بھی اس سے ہمارا کوئی قصور نہیں اگر ایک جگہ چیز آئے ہو رہی ہے ہمارا حق ہے کہ ہم اسے استعمال کرے ہم اسے اپنی بیٹیوں کی شادی کریں گے تمہیں سمجھ کیوں نہیں آرہی

اپنے شوہر کی باتیں سن کر میرا دل عجیب سا ہو گیا میں یہ سب کرنا نہیں چاہتی تھی مگر اس نے مجھے راضی کر لیا بولا تھوڑی دیر کا تو کام ہے جانو ہم قبرستان چلتے ہیں اس عورت کی قبر کھودیں گے اور وہاں سے جو بھی دولت ملے گی کہ اسے کوئی کام کاروبار کریں گے پھر ایسی حرکت سوچیں بھی نہیں میں اپنے شوہر کی باتوں میں آ گئی

رات کے 2 بجے ہم اپنے گھر سے نکلے ہمارے پاس کسی قسم کا کوئی اعلی یار نہیں تھا۔جسے ہم قبر کھودتے ہوئے ہمیں صرف یہ بتا کرنا تھا کہ تازہ خبر کون سی ہوگی جسے ہم مکی ہٹا کر تصور تک پہنچ سکے ہمیں گن کی مدد بھی طلب کرنا تھی ہم لوگ جب کردستان پہنچے تو خدا کی کرنی کون تھا اس وقت جاگ رہا تھا ہم نے اسے ساری حقیقت سے آگاہ نہیں کیا کہا کہ

ہمیں قبول کرنا چاہتے ہیں جو بہت ضروری ہے اسے کچھ باتوں میں لگا کر ہم لوگ اس قصبے کے جانب بڑھے جو آج شام ہی بنائی گئی تھی گورکھ نے اس کی نشاندہی کر دی تھی ویسے بھی وہ کچھ خاص ایماندار نہیں لگتا تھا عجیب سی نحوست تھی میں تو یہی سمجھا کہ اس نے ہم سے کوئی حصہ وغیرہ نہیں مانگا نہ ہی کوئی دوسری بات پوچھیں تو نیند میں لگ رہا تھا تو

اس کی روشنی میں جب ہم لوگ اس قبر تک پہنچے تو وہ بالکل تازہ تھی اس کا نام سے ملتے تھے ہم نے اسے ہٹانا شروع کیا تو وہ آسانی سے ہٹیں لیکن جب ہم قبر سے ہٹانے لگے تو ہمیں قبر سے ہلکی ہلکی آوازیں سنائی دینے لگیں میں نے اپنے شوہر کو منع بھی کیا کہ مجھے یہ معاملہ نہ کوئی اور لگتا ہے کہ میں یہیں پر لگ جانا چاہیے مگر وہ نہیں مانا مگر جب پوری سلہٹ آئی تو اس عورت نے جو قبر کے اندر دفن تھیں کفن پھاڑ کر اٹھی اور ایک زور دار چیخ ماری یہ دیکھ کر ہم گھبرا گئے۔میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر دیکھا وہ

عورت اس زندہ تھی تکلیف سے کراہ رہی تھی اس عورت کو دیکھ کر ہم دونوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں میں نے اپنے شوہر کو پیچھے ہٹنے کا کہا اس عورت پر چلنے کا کہا اس عورت پر نظر ڈالیں اور اسے ساری حقیقت سے آگاہ کیا مگر ظاہر ہے اس عورت کو یہی بتایا کہ اس کی ساس نے اسے زندہ مار دیا تھا میں اسے بچانے آئے ہو وہ لڑکی سارو قطار رونے کی بولی خدا کے لئے مجھے گھر لے لو میری ساس نے تم سے جھوٹ بولا ہے میں مرضی نہیں تھی

اس نے تو مجھے ایک دعا دی تھی کہا تھا کہ اس سے تمہیں آرام آجائے گا میں نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا سوچ رہی ہے اس کی تاسیس میرے اندر سوئی ہوئی انسانیت جاگی میں اور میرا شوہر اسے گھر لے آئے اگرچہ میرا دل تو اس کی طرف سے صاف تھا مگر شاہ نے اس کے دوسرے کمرے میں جاتے ہیں مجھے اکیلے میں بلا کر کہا سنو یہ تو سارا کھیل الٹ ہوگیا ہم اس عورت سے فائدہ اٹھانے کے تھے

مگر یہ تو ہمارے ہی پڑ گئی ہے ہاں تو کیا ہوا ہمیں بھی تھوڑی انسانیت کھانی چاہیے میں نے اپنے شوہر کو ڈانٹتے میں اس عورت کی دیکھ بھال کروں گی میں جانتی ہوں انسانیت کیا چیز ہوتی ہے میری بات پر غصے ہو کر گھر سے چلا گیا ۔میں اس لڑکے کے پاس گئی اسے کھانا وغیرہ دیا اور اسے ساری بات پوچھیں کیا ایسا کیا ہوا کہ اس کی ساس نے اس کو دھوکا دے کر قبر میں دفنانے کی اتنی جلدی کی تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک امیر گھرانے کی بہو ہے

اس کے ماں باپ بچپن میں فوت ہوگئے تھے اپنے چچا کے پاس رہتی تھی بری عورت جس کا نام شکیلا تھا اس نے اپنے بیٹے کے لیے لڑکی شادی کے بعد یہ کا رشتہ مانگا تھا شکیلہ کے بیٹے کو ماریا بہت پسند آ گئی تھی جب ماریا بہا کر شکیلا کے گھر کے تشریف لانے سے پہلے دن سے ہی واضح کر دیا کہ وہ صرف اور صرف بیٹے پیدا کروانا چاہتی ہے اسے پودے چاہیے اور اسے اپنی بہو سے کچھ نہیں چاہئے مگر یہ بات ماریا کی سمجھ میں نہ آئے کہ وہ بیٹا پیدا کرنے پر قادر نہیں تھی

اس لیے جب پہلی بیٹی ہوئی تو اس نے برسوں بعد جب امید سے ہوئی تو اس نے پہلے دن سے ہی کہنا شروع کر دیا تیسرے چوتھے مہینے میں جا کر اس کا الٹرا ساؤنڈ کروایا اور ڈاکٹر سے پوچھا کہ اس بچے کی جنس کیا ہے تو نے جو بتایا کہ جو لڑکی ہو تو اس اس نے طرح طرح کے حیلے بہانے کرکے اپنی بہو کا بچہ ضائع کروانے کی بھرپور کوشش کی مگر ایسا نہیں ہوسکا اور پھر اس نے اپنا آخری بار اس طرح چلا ک

ہ اپنی بہو کو نیند کی گولیاں اتنی مقدار میں دی تھی۔تو یہ ہم سب کو بھی بھجوا دے گی تو نے اس کیس سے پچاس ہزار روپے کی خطیر رقم دی گئی تھی اگر اس نے اپنی ساس پر الزام لگایا تو وہ یہ بات بھی آگ لگے گی کہ کس طرح اسے یہاں تک لائی ہے بہتر یہی ہے کہ یہ لڑکی جہاں تھی وہیں چلی جائے ویسے بھی لوگ تو جان ہی گئے ہوں گے کہ گھر سے بھاگ گئی ہے یا پھر اس کی زندگی ختم ہو گئی ہے تو پھر کیا ضرورت ہے ہمیں اس سب میں پڑھنے کی بہتر ہے کہ اپنے ٹھکانے پر واپس چلی جائے اس کی باتیں سن کر

میں کانپ کر رہ گئی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ریاض اتنا سنگدل ہو سکتا ہے میں نے ریاض کو سمجھانے کی کوشش کی کہ تم جو سوچ رہی ہوں ہے ایسا کسی بھی انسان کے ساتھ نہیں کرنا چاہیے پھر ہم بحث کرتے کرتے سو گئے صبح جب میں اٹھی تو گھر کی حالت بدلی ہوئی تھی گھر میں نہ لڑکی تھی اور نہ ہی میرا شوہر ریاض موجود تھا کا میری آنکھیں کیوں نہیں کھڑی میں سوچنے لگی کہ اس نے مجھے کچھ سمجھا تو نہیں دیا تھا میں اٹھ کر اپنے کپڑے جھڑنے لگی میں نے دیکھا پورا گھر سائیں کر رہا تھا

میں نے جلدی سے باہر کا رخ کیا اسی جگہ پہنچی جہاں وہ کافر تھے جا کر دیکھا تو قبر جوں کی توں موجود تھی ریاست کا کچھ پتہ نہیں تھا شام کو ریاست خود ہی گھر آ گیا۔میں اس پر برس پڑیں ریاست میں کیا کیا عورت کہاں گئی تم نے اسے کہا چپ آیا ہے یار تو نہیں دیا نہیں میں کیوں سے ماروں گا گھی میں صبح تہجد کے وقت اٹھا تو وہ ٹھنڈی پڑی ہوئی تھی اس کا جسم پر رہا تھا میں نے سوچا کہ اس سے پہلے ہم پر کوئی مصیبت آئے تو اس کی لاش کو ٹھکانے لگا آیا ہوں تم سمجھتی کیوں نہیں ہو ایسی لاش کو گھر میں رکھنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہوتی

اس کی باتیں سن کر میرا تو سر چکرا گیا خدا جانے اس نے اس لڑکی کو کہاں پھینکا ہوگا میں نے اسے رکھنے کی کوششوں سے ہلاک کرنے کی کوشش کی مگر اس نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا مایوس ہو کر میں بیٹھ گئی اپنے اللہ سے معافی مانگنے لگے کہ مجھ سے غلطی ہوگئی میں سوچ رہی تھی کہ غلطی کا ازالہ کیسے کروں مگر اس کی نوبت نہیں آئی مکافات عمل نے ہمیں ہماری کی سزا دیتی شام کو میری بیٹی کے گھر سے خبر آئی کہ اس کا شوہر ایک کار ایکسیڈنٹ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے میرا دماغ منیر کرائے کی

گاڑی چلاتا تھا جس کی وجہ سے اس کی آمدنی ہوتی تھی مگر وہ اپنی موٹر سائیکل یا کار لینا چاہتا تھا تاکہ وہ اپنی آمدن کو مستحکم کر سکے میں نے اپنی بیٹی کو 50 ہزار روپے بھی اسی لیے دیے تھے لیکن اب میرا داماد ہیں۔اس دنیا میں نہ رہا تو ان پیسوں کا میری بیٹی نے کیا کرنا تھا میری بیٹی کی بیٹی نے میرے دل کو دہلا کر رکھ دیا مگر میرا شوہر اس سب کے باوجود بھی باز نہیں آیا اسے تو گویا ایک مشغلہ مل گیا تھا وہ ایک مشغلہ مل گیا تھا لوگوں کی بنائی دولت اپنے ہاتھوں سے لوٹنے کا اسی وجہ سے میں نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا آپ نے اللہ کی راہ میں دن رات عبادت کرتے ہو اسے معافی مانگتی ہوں کہ وہ میرے اس گناہ کو بخش د

ورنہ میں جانتی ہوں قیامت کا عذاب بڑا سخت ہے میں نے کئی عورتوں کو غسل دینے ہیں کی عورتوں کا کفن تیار کیا ہے میں جانتی ہوں اور اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرتی ہوں خدا میری اس گناہ کو معاف کردے اس پر بیٹھ کر اس عورت سے معافی مانگتی ہوں مگر میں نہیں نہیں جانتی میرا رب مجھے معاف کرے گا یا نہیں اتنا کہہ کر وہ عورت خاموش ہو گئی تھی میں جانتی تھی کہ اس کا یہ ضمیر کا بوجھ کبھی ہلکا نہیں ہوگا

کیونکہ جو سوال نہیں کیا تھا مقابلے معافی نہیں تھا میں نے اسے اس کی تسلی اور دل کے اطمینان کے لئے کچھ وظائف بتا ئیں نماز کی پابندی کرنے کا کہا اور پھر اسے اپنے گھر سے رخصت کردیا کے جانے کے بعد میں کافی دیر تک آج بھی جب میں اس عورت کو یاد کرتی ہوں تو میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ جاتے ہیں ۔

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)میں جب بھی بابا کی قبر پر دعا کرنے قبرستان جاتی مجھے ایک بے نام سی قبر کے پاس ایک عورت بیٹھی ملتی جو ہمیشہ رو رہی ہوتی اور کسی سے معافی مانگتی ہوں

مجھے اس کا رونا بہت عجیب لگتا ہے حالانکہ چہرے سے وہ کافی گرمی لگ رہی تھی۔ایک دن مجھ سے رہا نہیں گیا میں نے اس سے پوچھ لیا اگر آپ برا نہ مانے تو مجھے اپنا دکھ بتا سکتی ہیں آپ یہاں کیوں بیٹھی ہیں کیا میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں

میری بات پر اس نے آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا اس کی نظروں میں بے پناہ غم اور ندامت کا احساس تھا میں نے دیکھا رو رو کر اس کی آنکھیں لال ہو چکی تھی تمہیں کیا بتاؤں بیٹی میں بہت بری ہوں اگر تم میری کہانی سننا چاہتی ہو تو تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھ جاؤ میرا بھی دل ہلکا ہو جائے گا

اس عورت کے ساتھ قبرستان میں بیٹھنا مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا میں نے اسے اپنے گھر چلے کی دعوت دی جسے اس نے تھوڑے درد کے بعد قبول کرلے اسلام کی ماری تھی شاید سہارا چاہتی تھی میں نے اسے چائے پلائی پھر جب اس کے حواس بحال ہوئے تو اس نے مجھے اپنی کہانی سنائی میرا نام آمنہ ہے میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئیں

جہاں عورتوں کا نسل در نسل پیشہ یہی تھا کہ وہ مر جانے والی خواتین کو غسل دیتی اور انہیں کفن وغیرہ پہناتے گاؤں میں تو کوئی بھی کام شروع کر لیا ہے نہیں کرتا تھا لیکن شہر میں ہماری اچھی خاصی کمائی ہو جاتی کیونکہ یہاں بھر ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی عورت مر جاتی اور لوگ ہمیں جانتے پہچانتے تھے۔اسی لئے ہمیں اپنے گھر لے جاتے 34 ہزار روپے ہمارے ہاتھ پر رکھے اور ہمیں غسل اور کفن کے انتظامات ہما دیتے

ہم لوگوں کو اس کام کی عادت پڑ چکی تھی اس لیے کسی قسم کا ڈر یا کوئی وحشت نہیں ہوتی تھی چار بجے میں اپنے کام سے فارغ ہو کر بیٹھی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی سلطانہ نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک پچاس سالہ عورت تھی جس کا قد اچھا خاصہ تھا اور صحت بھی قابل رشک تھی کہنے لگی مجھے تم سے کوئی کام ہے جلدی میرے گھر چلو میں حیران ہوئی کہ اتنی عزت میں کسی کو مجھ سے کیا کام ہوسکتا ہے

میں نے چادر پہنی اور اس کے ساتھ چل پڑی وہ بہت اچھی لگ رہی تھی ایک بڑے سے بنگلے کے سامنے جا کر وہ ابھی وہ پیدل ہی آئی تھی بلکہ اس کے گھر کے باہر دو گاڑیاں کھڑی تھی مجھے اس بات پر سخت حیرت ہوئی مجھے بڑی رازداری سے اندر لے کر گئی بولی دیکھو فوت ہو گئی ہے میں اس کے باپ کو نہیں جانتی میرا بیٹا ایک لاوارث لڑکی کو بہا کر لے آیا تھا تاہم اس سے بہت محبت بھی کرتا تھا مگر کیا کرے

یہ بیچاری تو اپنی اولاد کی تکلیف کو غصہ نہیں سکیں یہ حملہ ہے مگر اس کی طرح ہے مگر اس کی چاند تکلیف سے چلی گئی ہے حملہ آور کو زیادہ دیر تک گھر میں رکھنا اچھی بات نہیں ہے ۔تم اسی جلدی سے غسل دے دو تاکہ میں اسے مختصرا رسومات کے بعد دفن کر دو مجھے تو اس لحاظ سے بھی ڈر لگ رہا ہے تم نے سنا ہے حملہ آور تھے جب میں جاتی ہیں تو

وہ ڈان بن جاتے ہیں اس عورت کی توہمات سن کر میں تو حیران رہ گئی بلکہ ایسی کوئی بھی بات سچ نہیں ہوتی یہ لوگوں کی کی بنائی ہوئی باتیں ہیں میں نے ایک نظر اس عورت کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں پر کسی قسم کے کوئی تاثرات نہیں تھے میں حیران تھی کہ اپنی بہو کے مرنے پر کوئی عورت اتنا پرسکون کیسے رہ سکتی ہے وہ بھی جب اس کے پیٹ میں اپنا پوتا ہوں پھر میں نے غسل کی تیاریاں شروع کر دی

تختی پر لاش کو لٹکایا گیا یہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا کہ وہ ایک جوان اور خوبصورت تھی اتنی بھرپور جوانی میں مر جانا اپنے آپ میں بہت بڑا سانحہ ہے بلکہ ہاتھوں میں ہلکی سی حرکت محسوس ہوئی مجھے شخص ہوا تو میں نے اس کی ناک کے سامنے ہاتھ رکھ کر دیکھا اس کی سانس اور نفس کی تو اسے اشارہ مل گیا کہ وہ عورت مری نہیں ہے

بلکہ صدقے کی حالت میں ہے جب انسان کی ظاہری حالت ایسی ہوتی ہے جیسے کہ مردے کی لیکن اصل میں وہ زندہ ہوتا ہے میں نے جب یہ سب دیکھا تو میں الجھن کا شکار ہوگئی۔غسل دیتے دیتے رہ کر میں نے اس عورت کی ساس کو بلایا بات سنئے یہ تو مجھے زندہ لگ رہی ہیں آپ کسی ڈاکٹر کو بلائیے ہو سکتا ہے کہ ابھی ان کی کچھ زندگی باقی ہو اور تم میری بات سن کر خاموش ہو گی نہیں تمہیں مجھے مشورہ دینے کی ضرورت نہیں تمہیں جو کہا ہے وہی کرو اس کی بات سن کر میں سمجھ گئی کہ یہ کوئی سوچی سمجھی

سازش ہے ورنہ جوان عورت کی موت کے منہ میں نہیں جا سکتی میں نے اسے غسل دینے اور کفن بنانے سے انکار کردیا تب اس کی ساس جلدی سے دوسرے کمرے میں گئیں اور لال رنگ کی ایک تحریر اٹھائے جس میں پانچ ہزار کے نوٹ تھے اس وقت مجھے پیسوں کی شدید ضرورت تھی

پھر پیسوں سے تو کوئی بھی بکتا ہے میرا ایمان بھی تکمیل کا کیا میں اس عورت کی بات سمجھ گئی میں نے وہ پیسے اپنی جیب میں رکھ لئے یہ پیسے میں اپنے داماد کو دینا چاہتی تھی جو کب سے مجھ سے موٹرسائیکل مانگ رہا تھا اسی وجہ سے میری بیٹی کے گھر میں بھی سکون نہ تھا تھا پیسے لے کر مجھے اطمینان ہو گیا کہ میں اپنی بیٹی کو پیسے دے دوں گی تو اس کا مسئلہ حل ہوجائے گا میں دوبارہ اس عورت کو غسل دینے لگیں مگر میرا دلبر جلسہ ہورہا تھا

۔میں نے اسے غسل دینے کے بعد کفن بنا دیا مگر میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا مگر زیادہ دیر وہا رہا نہیں رکیں اور گھر سے نکل آئے اس گھر کے قریب ایک قبرستان تھا جن لوگوں کا خاندانی قبرستان رکھتا تھا میں اس سے وحشت سے دیکھتی گھر آگئی گھر آگئے مگر مجھے بستر پر لیٹے نیند نہیں آ رہی تھی تھوڑی دیر کے بعد میری بیٹی آئی میں نے اسے بوجھل دل سے خوشخبری سنائی ک

تمہارے پچاس ہزار روپے کا بندوبست ہوگیا ہے اب تم اپنے شوہر کو دے دینا تاکہ وہ موٹر سائیکل لے لے اور تمہاری بھی زندگی آسان ہو وہ بولی باجی آپ اتنے پیسے کہاں سے لائے ہیں میں نے اسے حقیقت نہیں بتائی وہ خوشی خوشی پیسے لے کر چلی گئی لیکن پھر شام کو جب میرا شاہراہڈیرہ عسمیل فروش اور لالچی تھا اسے ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا میں نے جب اسے یہ بات بتائی تو باتوں باتوں میں

میں نے اس عورت کے زیورات کا ذکر بھی کر دیا کہ عورت نے اچھی خاصی سونے کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی اس کے ساتھ انہیں نکال نہیں پائی اور اس کے ساتھ ہیں فلم بنانے کا کہا تھا عورت نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کو دکھ نہیں دینا چاہتے کہ اس کی بیوی مر گئی ہے اس لیے اس لیے اسے کہو گی کہ تمہاری بیوی بھاگ گئی ہے میں اسے دفنانا چاہتی ہوں۔

تاکہ میرے بیٹے کے دل میں غم کی جگہ حصہ لے لے اور خود دوسری شادی کرنے کے لیے رضا مند ہو جائے میں اپنے دل کو تسلی دے رہی تھی کہ اس عورت نے اپنے بیٹے کی بھلائی کے لیے یہ سب کیا ہے اپنی بیٹی کو غم میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی ہوں کی تو نماز جاتی ہے کس کا بیٹا ساری عمر ایک عورت کے

غم میں بیٹھ رہے اس کے بعد بھی مجھے اطمینان نہیں ہو رہا تھا لیکن میں وہ نے ایک نئی کریں میلادی کہنے لگا بس یوں تو ہمیں نکالیں پڑھیں گے ورنہ اس ملک کو بھی اس شعبہ میں سے بھی اس سے ہمارا کوئی قصور نہیں اگر ایک جگہ چیز آئے ہو رہی ہے ہمارا حق ہے کہ ہم اسے استعمال کرے ہم اسے اپنی بیٹیوں کی شادی کریں گے تمہیں سمجھ کیوں نہیں آرہی

اپنے شوہر کی باتیں سن کر میرا دل عجیب سا ہو گیا میں یہ سب کرنا نہیں چاہتی تھی مگر اس نے مجھے راضی کر لیا بولا تھوڑی دیر کا تو کام ہے جانو ہم قبرستان چلتے ہیں اس عورت کی قبر کھودیں گے اور وہاں سے جو بھی دولت ملے گی کہ اسے کوئی کام کاروبار کریں گے پھر ایسی حرکت سوچیں بھی نہیں میں اپنے شوہر کی باتوں میں آ گئی

رات کے 2 بجے ہم اپنے گھر سے نکلے ہمارے پاس کسی قسم کا کوئی اعلی یار نہیں تھا۔جسے ہم قبر کھودتے ہوئے ہمیں صرف یہ بتا کرنا تھا کہ تازہ خبر کون سی ہوگی جسے ہم مکی ہٹا کر تصور تک پہنچ سکے ہمیں گن کی مدد بھی طلب کرنا تھی ہم لوگ جب کردستان پہنچے تو خدا کی کرنی کون تھا اس وقت جاگ رہا تھا ہم نے اسے ساری حقیقت سے آگاہ نہیں کیا کہا کہ

ہمیں قبول کرنا چاہتے ہیں جو بہت ضروری ہے اسے کچھ باتوں میں لگا کر ہم لوگ اس قصبے کے جانب بڑھے جو آج شام ہی بنائی گئی تھی گورکھ نے اس کی نشاندہی کر دی تھی ویسے بھی وہ کچھ خاص ایماندار نہیں لگتا تھا عجیب سی نحوست تھی میں تو یہی سمجھا کہ اس نے ہم سے کوئی حصہ وغیرہ نہیں مانگا نہ ہی کوئی دوسری بات پوچھیں تو نیند میں لگ رہا تھا تو

اس کی روشنی میں جب ہم لوگ اس قبر تک پہنچے تو وہ بالکل تازہ تھی اس کا نام سے ملتے تھے ہم نے اسے ہٹانا شروع کیا تو وہ آسانی سے ہٹیں لیکن جب ہم قبر سے ہٹانے لگے تو ہمیں قبر سے ہلکی ہلکی آوازیں سنائی دینے لگیں میں نے اپنے شوہر کو منع بھی کیا کہ مجھے یہ معاملہ نہ کوئی اور لگتا ہے کہ میں یہیں پر لگ جانا چاہیے مگر وہ نہیں مانا مگر جب پوری سلہٹ آئی تو اس عورت نے جو قبر کے اندر دفن تھیں کفن پھاڑ کر اٹھی اور ایک زور دار چیخ ماری یہ دیکھ کر ہم گھبرا گئے۔میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر دیکھا وہ

عورت اس زندہ تھی تکلیف سے کراہ رہی تھی اس عورت کو دیکھ کر ہم دونوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں میں نے اپنے شوہر کو پیچھے ہٹنے کا کہا اس عورت پر چلنے کا کہا اس عورت پر نظر ڈالیں اور اسے ساری حقیقت سے آگاہ کیا مگر ظاہر ہے اس عورت کو یہی بتایا کہ اس کی ساس نے اسے زندہ مار دیا تھا میں اسے بچانے آئے ہو وہ لڑکی سارو قطار رونے کی بولی خدا کے لئے مجھے گھر لے لو میری ساس نے تم سے جھوٹ بولا ہے میں مرضی نہیں تھی

اس نے تو مجھے ایک دعا دی تھی کہا تھا کہ اس سے تمہیں آرام آجائے گا میں نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا سوچ رہی ہے اس کی تاسیس میرے اندر سوئی ہوئی انسانیت جاگی میں اور میرا شوہر اسے گھر لے آئے اگرچہ میرا دل تو اس کی طرف سے صاف تھا مگر شاہ نے اس کے دوسرے کمرے میں جاتے ہیں مجھے اکیلے میں بلا کر کہا سنو یہ تو سارا کھیل الٹ ہوگیا ہم اس عورت سے فائدہ اٹھانے کے تھے

مگر یہ تو ہمارے ہی پڑ گئی ہے ہاں تو کیا ہوا ہمیں بھی تھوڑی انسانیت کھانی چاہیے میں نے اپنے شوہر کو ڈانٹتے میں اس عورت کی دیکھ بھال کروں گی میں جانتی ہوں انسانیت کیا چیز ہوتی ہے میری بات پر غصے ہو کر گھر سے چلا گیا ۔میں اس لڑکے کے پاس گئی اسے کھانا وغیرہ دیا اور اسے ساری بات پوچھیں کیا ایسا کیا ہوا کہ اس کی ساس نے اس کو دھوکا دے کر قبر میں دفنانے کی اتنی جلدی کی تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک امیر گھرانے کی بہو ہے

اس کے ماں باپ بچپن میں فوت ہوگئے تھے اپنے چچا کے پاس رہتی تھی بری عورت جس کا نام شکیلا تھا اس نے اپنے بیٹے کے لیے لڑکی شادی کے بعد یہ کا رشتہ مانگا تھا شکیلہ کے بیٹے کو ماریا بہت پسند آ گئی تھی جب ماریا بہا کر شکیلا کے گھر کے تشریف لانے سے پہلے دن سے ہی واضح کر دیا کہ وہ صرف اور صرف بیٹے پیدا کروانا چاہتی ہے اسے پودے چاہیے اور اسے اپنی بہو سے کچھ نہیں چاہئے مگر یہ بات ماریا کی سمجھ میں نہ آئے کہ وہ بیٹا پیدا کرنے پر قادر نہیں تھی

اس لیے جب پہلی بیٹی ہوئی تو اس نے برسوں بعد جب امید سے ہوئی تو اس نے پہلے دن سے ہی کہنا شروع کر دیا تیسرے چوتھے مہینے میں جا کر اس کا الٹرا ساؤنڈ کروایا اور ڈاکٹر سے پوچھا کہ اس بچے کی جنس کیا ہے تو نے جو بتایا کہ جو لڑکی ہو تو اس اس نے طرح طرح کے حیلے بہانے کرکے اپنی بہو کا بچہ ضائع کروانے کی بھرپور کوشش کی مگر ایسا نہیں ہوسکا اور پھر اس نے اپنا آخری بار اس طرح چلا ک

ہ اپنی بہو کو نیند کی گولیاں اتنی مقدار میں دی تھی۔تو یہ ہم سب کو بھی بھجوا دے گی تو نے اس کیس سے پچاس ہزار روپے کی خطیر رقم دی گئی تھی اگر اس نے اپنی ساس پر الزام لگایا تو وہ یہ بات بھی آگ لگے گی کہ کس طرح اسے یہاں تک لائی ہے بہتر یہی ہے کہ یہ لڑکی جہاں تھی وہیں چلی جائے ویسے بھی لوگ تو جان ہی گئے ہوں گے کہ گھر سے بھاگ گئی ہے یا پھر اس کی زندگی ختم ہو گئی ہے تو پھر کیا ضرورت ہے ہمیں اس سب میں پڑھنے کی بہتر ہے کہ اپنے ٹھکانے پر واپس چلی جائے اس کی باتیں سن کر

میں کانپ کر رہ گئی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ریاض اتنا سنگدل ہو سکتا ہے میں نے ریاض کو سمجھانے کی کوشش کی کہ تم جو سوچ رہی ہوں ہے ایسا کسی بھی انسان کے ساتھ نہیں کرنا چاہیے پھر ہم بحث کرتے کرتے سو گئے صبح جب میں اٹھی تو گھر کی حالت بدلی ہوئی تھی گھر میں نہ لڑکی تھی اور نہ ہی میرا شوہر ریاض موجود تھا کا میری آنکھیں کیوں نہیں کھڑی میں سوچنے لگی کہ اس نے مجھے کچھ سمجھا تو نہیں دیا تھا میں اٹھ کر اپنے کپڑے جھڑنے لگی میں نے دیکھا پورا گھر سائیں کر رہا تھا

میں نے جلدی سے باہر کا رخ کیا اسی جگہ پہنچی جہاں وہ کافر تھے جا کر دیکھا تو قبر جوں کی توں موجود تھی ریاست کا کچھ پتہ نہیں تھا شام کو ریاست خود ہی گھر آ گیا۔میں اس پر برس پڑیں ریاست میں کیا کیا عورت کہاں گئی تم نے اسے کہا چپ آیا ہے یار تو نہیں دیا نہیں میں کیوں سے ماروں گا گھی میں صبح تہجد کے وقت اٹھا تو وہ ٹھنڈی پڑی ہوئی تھی اس کا جسم پر رہا تھا میں نے سوچا کہ اس سے پہلے ہم پر کوئی مصیبت آئے تو اس کی لاش کو ٹھکانے لگا آیا ہوں تم سمجھتی کیوں نہیں ہو ایسی لاش کو گھر میں رکھنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہوتی

اس کی باتیں سن کر میرا تو سر چکرا گیا خدا جانے اس نے اس لڑکی کو کہاں پھینکا ہوگا میں نے اسے رکھنے کی کوششوں سے ہلاک کرنے کی کوشش کی مگر اس نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا مایوس ہو کر میں بیٹھ گئی اپنے اللہ سے معافی مانگنے لگے کہ مجھ سے غلطی ہوگئی میں سوچ رہی تھی کہ غلطی کا ازالہ کیسے کروں مگر اس کی نوبت نہیں آئی مکافات عمل نے ہمیں ہماری کی سزا دیتی شام کو میری بیٹی کے گھر سے خبر آئی کہ اس کا شوہر ایک کار ایکسیڈنٹ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے میرا دماغ منیر کرائے کی

گاڑی چلاتا تھا جس کی وجہ سے اس کی آمدنی ہوتی تھی مگر وہ اپنی موٹر سائیکل یا کار لینا چاہتا تھا تاکہ وہ اپنی آمدن کو مستحکم کر سکے میں نے اپنی بیٹی کو 50 ہزار روپے بھی اسی لیے دیے تھے لیکن اب میرا داماد ہیں۔اس دنیا میں نہ رہا تو ان پیسوں کا میری بیٹی نے کیا کرنا تھا میری بیٹی کی بیٹی نے میرے دل کو دہلا کر رکھ دیا مگر میرا شوہر اس سب کے باوجود بھی باز نہیں آیا اسے تو گویا ایک مشغلہ مل گیا تھا وہ ایک مشغلہ مل گیا تھا لوگوں کی بنائی دولت اپنے ہاتھوں سے لوٹنے کا اسی وجہ سے میں نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا آپ نے اللہ کی راہ میں دن رات عبادت کرتے ہو اسے معافی مانگتی ہوں کہ وہ میرے اس گناہ کو بخش د

ورنہ میں جانتی ہوں قیامت کا عذاب بڑا سخت ہے میں نے کئی عورتوں کو غسل دینے ہیں کی عورتوں کا کفن تیار کیا ہے میں جانتی ہوں اور اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرتی ہوں خدا میری اس گناہ کو معاف کردے اس پر بیٹھ کر اس عورت سے معافی مانگتی ہوں مگر میں نہیں نہیں جانتی میرا رب مجھے معاف کرے گا یا نہیں اتنا کہہ کر وہ عورت خاموش ہو گئی تھی میں جانتی تھی کہ اس کا یہ ضمیر کا بوجھ کبھی ہلکا نہیں ہوگا

کیونکہ جو سوال نہیں کیا تھا مقابلے معافی نہیں تھا میں نے اسے اس کی تسلی اور دل کے اطمینان کے لئے کچھ وظائف بتا ئیں نماز کی پابندی کرنے کا کہا اور پھر اسے اپنے گھر سے رخصت کردیا کے جانے کے بعد میں کافی دیر تک آج بھی جب میں اس عورت کو یاد کرتی ہوں تو میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ جاتے ہیں ۔

Comments are closed.