دونوں جمعہ کے درمیان کی ساری خطائیں معاف کر دی جائیں گی؛ یہ وظیفہ کریں
جمعہ کے دن غسل کرنا نبی کی سنت ہے جیسا کہ آپ کا فرمان ہے جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لئے آئے تو چاہئے کہ غسل کرے یہ حدیث متفق علیہ ہے۔معلوم ہوا کہ جمعہ کی نماز میں شرکت کرنے والے ہر بالغ شخص پر غسل کرنا صاف کپڑے پہننا
اور خوشبو لگانا مستحب ہے اور اس کے مستحب ہونے میں کوئی اختلاف نہیں انہی میں سے ایک حدیث میں حضرت سلمان فارسی ؓ سے مروی ہے کہانہوں نے کہا کہ نبی پاک نے ارشاد فرمایا جو آدمی
جمعہ کے دن غسل کرے جہاں تک ہوسکے صفائی و پاکیزگی کا خیال کرے اور جو تیل خوشبو اس کے گھر میں میسر ہو وہ لگائے۔ پھر وہ گھر سے نماز کے لئے جائے اور مسجد میں پہنچ کر اس کی احتیاط کرے کہ
جو آدمی پہلے سے ایک ساتھ بیٹھے ہوں ان کے بیچ میں نہ بیٹھے یعنی جگہ تنگ نہ کرے پھر نماز یعنی سنت و نوافل کی جتنی رکعتیں اس کے لئے مقدر ہوں پڑھے پھر جب امام خطبہ دے تو توجہ خاموشی سے اس کو سنے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس جمعے اور دوسرے جمعے کے درمیان اس کی ساری خطائیں معاف کر دی جائیں گیتو معلوم ہوا کہ جمعے کے دن جہاں باقی اعمال کا درس ہے وہیں پر
جمعہ کے دن غسل کا بھی درس دیا گیا ہے اسی لئے جمعے کے غسل کو سنت کا درجہ دیاجاتا ہے اور بعض حضرات اس کو واجب کا درجہ دیتے ہیں۔ ایک معروف حدیث ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن وضو کرے تو یہ کافی ہے لیکن جو غسل کرے تو غسل افضل ہے اسی طرح کی اور بھی احادیث آئی ہیں جن میں آپ نے غسل کا حکم دیا اور جب حضرت عمر بن الخطاب ؓ کو بھی یہی بات سمجھ میں آئی کہ
جب وہ جمعے کے دن خطبہ ارشادفرمارہے تھے کہ اس دوران حضرت عثمان بن عفان ؓ داخل ہوئے تو حضرت عمر ؓ نے اپنا خطبہ کاٹ کرحضرت عثمان ؓ سے لیٹ آنے کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے آذان سنی اور فورا وضو کر کے مسجد میں آگیا حضرت عمر ؓ فرمانے لگے کہ صرف وضو جب کہ میں نے تو رسول اللہ سے سنا ہے کہ جو شخص جمعے کی نماز کے لئے آئے وہ غسل کرے اس طرح سے حضرت عمر ؓ کا تمام لوگوں کے سامنے حضرت عثمان ؓ پر اس کا انکار کرنا یہ معلوم ہوتا ہے۔
کہ غسل جمعہ فضیلت والے اعمال میں سے ہے کہ جن کے چھوڑنے پر گناہ نہیں ہوتا اس ساری بحث کا مقصد یہ تھا کہ آپ کو جمعے کے دن کے غسل کی اہمیت معلوم ہوجائے اور معلوم یہ ہوا کہ جمعے کےدن ثواب کی نیت سے غسل کیا جائےاور چونکہ اس کی متعدد احادیث میں تاکید ہے اسی لئے اس کو سنت سمجھ کر کرنا چاہئے یہ حکم تو عام ہوا جس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ سبھی شامل ہیں آیا
جمعے کا غسل غسلِ جنابت ہی ہونا چاہئے؟ تو اس سے متعلق ایک روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی عاجز آگیا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے ہر جمعہ جماع کرے اور اس کے لئے دو اجر ہیں ایک اجر اس کے اپنے غسل کرنے کا اور دوسرا اجر اس کی بیوی کے غسل کرنے کا ہے ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔آمین