پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر توانائی کے بحران، مہنگائی سے بری طرح متاثر، 150 یونٹس بند، 25 لاکھ ورکرز بے روزگار ہو گئے

اسلام آباد (آئی این پی) پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور ملک میں توانائی کے بحران نے ٹیکسٹائل کی صنعت کو شدید نقصان پہنچایا ہ ، گزشتہ چھ ماہ کے دوران تقریباً 150 یونٹس بند ہو چکے ہیں۔ ٹیکسٹائل اور اسپننگ یونٹس کی بندش سے تقریباً 2.5 ملین ورکرز بے روزگار ہو گئے ہیں

اور پاکستان سے دوسرے ممالک کو ٹیکسٹائل اشیاء کی برآمدات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ٹیکسٹائل ملز کے مالکان نے دعویٰ کیا کہ بجلی کے نرخوں میں غیر معمولی اضافے کے بعد گزشتہ چھ ماہ کے دوران پیداواری لاگت میں 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے بجلی کا ٹیرف 18 روپے فی یونٹ تھا جسے حکومت نے بڑھا کر 36 روپے فی یونٹ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ

گزشتہ چھ ماہ کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی 150 روپے فی لیٹر سے بڑھ کر 245 روپے فی لیٹر ہو گئیں۔ پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق گزشتہ سال کے دوران 31.8 بلین ڈالر کی برآمدات کے مجموعی حجم میں ٹیکسٹائل کی برآمد کا 61 فیصد حصہ رہا۔ نٹ ویئر کی برآمدات میں 34.32 فیصد اضافہ ہوا اور مالی سال 2021-22 میں 5.12 بلین ڈالر تک پہنچ گئی جو پچھلے مالی سال میں 3.81 بلین ڈالر تھی۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ

ٹیکسٹائل سیکٹر کے بحران کو حل کرنے اور قومی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے سخت فیصلے ناگزیر ہیں۔ہم آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہیں۔ ہمیں پاکستان کو پانچویں بڑی معیشت بنانا ہے۔ حکومت معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ترجیحات کا تعین کرے۔ مہنگائی محض ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 2018 کے بعد بیرونی قرضوں کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘‘23 بلین ڈالر کی ادائیگیاں باقی ہیں اور 33 بلین ڈالر (اندرونی) فنانس کرنے کی

ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ برآمدات کو بڑھانے اور درآمدات کی آمد کو باقاعدہ بنانے کے لیے ایک فعال ڈھانچہ قائم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے منصوبے پر حرف بہ حرف عمل درآمد بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر گوہر نے کہا کہ پاکستان کو 40 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہے جس میں 70 ارب ڈالر کی درآمدات اور صرف 30 ارب ڈالر کی برآمدات ہیں جبکہ 30 ارب ڈالر کی ترسیلات زر متوقع ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ رقم معیشت کو چلانے کے لیے کافی نہیں ہے۔

پاکستان کو برآمدات بڑھانے کے لیے ضرورت پر مبنی پالیسیاں وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک اپنی معاشی اور سماجی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ گزشتہ پانچ ماہ کے دوران اسپننگ اور ٹیکسٹائل یونٹس کی بندش کے بعد ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات کا تناسب بھی کم ہوا ہے۔اپٹما نارتھ زون کے چیئرمین حامد زمان نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ حکومت کا عزم اور اقدامات ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے اس کے اقدامات سے مطابقت نہیں رکھتے۔

انہوں نے کہا کہ اسپننگ اور ٹیکسٹائل یونٹس کے پاس پیداواری لاگت کئی گنا بڑھ جانے کے باعث اپنے کام کو روکنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بڑھتی ہوئی شرح سود، دوہرے ہندسے کی افراط زر اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی نے ٹیکسٹائل سیکٹر کو بین الاقوامی منڈی میں مقابلہ کرنے میں رکاوٹ ڈالی۔ملک کے سب سے بڑے ٹیکسٹائل یونٹس میں سے ایک کوہ نور ٹیکسٹائل ملز نے

دو روز قبل پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو عارضی طور پر کام روکنے کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ دیگر ٹیکسٹائل یونٹس بھی متعلقہ ریاستی اداروں کو اپنے کام بند کرنے کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں۔ حامد زمان نے کہا کہ ”ٹیکسٹائل یونٹس کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (LC) نہیں کھولے گئے اور ملک میں کپاس کی کم پیداوار کے بعد خام مال بھی قلت اور مہنگا ہو گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ چند روز قبل اپٹما نے وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی رابطہ کیا تھا کہ وہ صورتحال کا نوٹس لیں کیونکہ لاکھوں لوگ ٹیکسٹائل سیکٹر

سے منسلک ہیں۔ دوسری جانب ملک میں حالیہ تباہ کن سیلاب کی وجہ سے 2022-23 کے دوران کپاس کی مجموعی پیداوار 40 فیصد کم رہے گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق کپاس کی پیداوار 4.2 ملین گانٹھوں تک محدود رہے گی جو کہ گزشتہ مالی سال میں 7.3 ملین گانٹھیں تھیں۔ملکی طلب کو پورا کرنے کے لیے 3.5 ملین گانٹھیں درآمد کی گئیں۔ رواں مالی سال میں ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تقریباً 7.5 ملین روئی کی گانٹھیں درآمد کرنا ہوں گی۔ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر ہیں

، آنے والے مہینوں میں روئی کی گانٹھوں کی اضافی درآمد حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ٹیکسٹائل آئٹمز اور گارمنٹس کی برآمدات کا مجموعی حجم 19.3 بلین ڈالر تھا جو ملک میں کپاس کی قلت کے باعث رواں مالی سال میں حاصل نہیں کیا جا سکا۔

Comments are closed.