پاکستان میں سونے کا پہاڑ دریافت ؟ اب ہر پاکستانی امیر ہوجائے گا

جی ہاں یہ غلط نہیں ہے کہ پاکستان میں سونے کا بڑا زخیرہ ہے جسے اب حاصل کرنے کے لیے حکومت پنجاب کو ہوش آگیا ہے اور یہ اتنا سونا ہے کہ ہم نکالتے نکالتے تھک جائیں گے لیکن یہ سونا ختم ہونے والا نہیں ہے کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ شائد قیامت کے نزدیک جب دریائے فرات خشک ہوجائے گا تو ایک حدیث مبارکہ کے مفہوم کے مطابق اُس میں سے سونے کا پہاڑ نکل آئے گا جس کو حاصل کرنے کے لیے دنیا آپس میں لڑے گی یہ حدیث اپنی جگہ لیکن میں آج جس سونے کا ذکر کررہا ہوں اُس کا ذکر تو قرآن پاک میں بھی ہے۔
جہاں دنیا ابھی پہنچی ہے وہاں سورۃ رعد کی آیت نمبر 17 کا مفہوم یہ ہے کہ
بارش گرتی ہے اور ندی نالے اپنی مقدار کے مطابق بہہ نکلتے ہیں پانی کے اوپر جھاگ اٹھتی ہے جس میں وہ منافع بھی ہوتا ہے جھاگ اڑ جاتی ہے اور نفع والی چیز بیٹھ جاتی ہے جسے آگ سے پگھلا کر زیور اور دوسری کارآمد اشیا بناتے ہو اس میں سے وہ سب نکلتا ہے اور اللہ اسی طرح حق کو باطل سے جدا کرتا ہے یعنی دنیاوی زندگی جھاگ ہے اور نیک اعمال وہ سونا ہے جو جمع ہوتے رہتے ہیں اور یہی انسان کی اصل زیبائش ہے ۔

اب آئین پاکستان میں سونے کے ذخائر کی جانب۔ تو جناب ہمارے دریائے سندھ میں اتنا سونا ہے کہ ہم نکالتے نکالتے تھک جائیں گے، دریا سونا اگلتے اگلتے نہیں تھکے گا ،سب سے پہلے میں نے اسی لیے قرآن و حدیث سے اس دعویٰ کو جانچا کہ کیا قرآن و حدیث سے ثابت شدہ ہے یا نہیں کہ دریاؤں میں سونا پایا جاتا ہے یا نہیں؟ یہ بیان کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ کہیں اس کو لوک داستان یا کہانی سمجھ کر نظر انداز نا کر دیا جائے کہ دریا میں اگر سونا ہے تو یہ ثابت کہاں سے ہوگا تو جناب دریائے سندھ میں اٹک سے پار جہاں سے دریا پر سکون ہونا شروع ہوتا ہے اور تربیلا ڈیم تک اس کی ریت میں وہ سونا پایا جاتا ہے جسے “پلیسر گولڈ ” یا ریت میں چھپا سونا کہا جاتا ہے۔ دریائے سندھ میں یہ سونا نکالنے والے دہائیوں سے یہ کام کر رہے ہیں کہ روایتی انداز میں دریا کے ڈیلٹا سے پتھر اور ریت کو اٹھایا جاتا ہے اور اسے چھاننی میں چھانا جاتا ہے اور یوں سونے کے ذرات تلاش کیے جاتے ہیں جس سے اُن کا روزگار چلتا ہے لیکن اب حکومت پنجاب نے یہ سونا سائنٹیفک انداز میں خود نکالنے اور استعمال کرنے کا پروگرام بنایا ہے حکومت کے جاری کردہ نوٹفیکیشن کے مطابق
’’ اٹک میں 3 ماہ کیلئے دفعہ 144 نافذ،پنجاب حکومت کا معدنی ذخائر اور ماحول کے تحفظ کیلئے احسن اقدام،ضلع اٹک میں سونے سمیت تمام معدنیات کی بغیر اجازت کان کنی پر پابندی عائد کردی گئی ہے،سیکرٹری داخلہ پنجاب نے اٹک میں 3 ماہ کیلئے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے ،اٹک میں دریائے سندھ کے اطراف سونے سمیت تمام معدنیات کی بلا اجازت کھدائی پر دفعہ 144 نافذ رہے گی ،دریائے سندھ کے اطراف کان کنی یا کھدائی کی مشینری کی نقل و حمل پر بھی 3 ماہ کیلئے پابندی عائد کی گئی ہے ،پلیسر گولڈ قومی خزانے کیلئے اہم ترین معدنیات میں سے ایک ہے،محکمہ داخلہ پنجاب نے دفعہ 144 کے نفاذ کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا‘‘
جی جناب یہ ہے وہ خبر جسے مجھے آپ تک پہنچانا تھا ظاہر ہے نجی طور پر کام کرنے والے روایتی انداز میں صرف کنارے کنارے ہی یہ کام کرتے تھے حکومت بڑے پیمانے پر یہ کام کرئے گی تو نتیجہ کیا سے کیا ہوگا ماہرین کے مطابق دریائے سندھ اور اس کے معاون ندی نالوں میں کچھ ایسے پہاڑ موجود ہیں جہاں سونے کے چھپے ہوئے زخائر ہیں جس میں سے پانی اپنا حصہ وصول کرتا چلا آرہا ہے یہ صدیوں سے بہہ رہا ہے اور پہاڑ بھی صدیوں سے ہیں اس پہاڑ کو تو تلاش کرنا شائد ممکن نا ہو لیکن دریا میں سے سونا نکالا جا سکتا ہے حکومت نے ابتدائی طور پر تین ماہ کی پابندی عائد کی ہے جو بڑھائی بھی جاسکتی ہے کیونکہ ماہر ارضیات کا کہنا ہے کہ دنیا کے تمام دریاوں سے ذیادہ پلیسر گولڈ دریائے سندھ میں پایا جاتا ہے۔

نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر

Comments are closed.