فائنل کال کا ڈراپ سین، تحریک انصاف سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؟

اسلام آباد میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے منگل کی رات کیے گئے آپریشن کے نتیجے میں اگرچہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا احتجاج اور دھرنا ختم ہو چکا ہے اور اسلام آباد میں صورت حال معمول کی طرف لوٹ رہی ہے۔ لیکن وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ دھرنا جاری ہے۔

جہاں اس دھرنے کے حوالے سے حکومتی اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں تحریک انصاف کی قیادت کے طرز عمل اور فیصلوں پر بھی تنقید ہو رہی ہے ، اس کے تحریک انصاف بالخصوص عمران خان کی رہائی کے معاملے پر اثرات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔

دھرنے میں شریک کئی ایک ورکرز کی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جنہوں نے دھرنے کی قیادت پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی ’فائنل کال‘ کا اعلان جب علیمہ خان کی جانب سے اڈیالہ جیل کے باہر ہوا تو وہ تحریک انصاف کے بہت سے رہنماؤں یہاں تک کہ علی امین گنڈاپور کے لیے بھی ’سرپرائز‘ تھا۔

اس کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے اس پر تحفظات کا اظہار بھی سامنے آیا اور اسے آگے کرنے کے لیے عمران خان سے ملاقات بھی کی گئی لیکن بات نہ بنی اور عمران خان نے ہر صورت 24 نومبر کو نکلنے اور ڈی چوک پہنچنے کے احکامات دے دیے۔

اس کے ساتھ ساتھ جو چیز ماضی کے برعکس ہو رہی تھی وہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی ارکان پارلیمنٹ، پارٹی رہنماؤں اور ورکرز سے ملاقاتیں اور ان سے خطابات یا عمران خان کا پیغام پہنچانے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔

بشریٰ بی بی واضح طور پر ایم این ایز اور قومی اسمبلی کے ٹکٹ ہولڈرز کو 10 ہزار اور ایم پی ایز اور صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ ہولڈرز کو پانچ ہزار افراد لانے اور ان کی سرگرمیوں کے ویڈیو ثبوت فراہم کرنے کا پابند بھی بنا رہی تھیں اور بصورت دیگر انہیں پارٹی سے نکالنے کا اعلان بھی کر رہی تھیں۔

اس پر بھی پارٹی کے اندر اختلافات کی خبریں آنا شروع ہوئیں۔

سیاسی تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ احتجاج کے معاملے پر تحریک انصاف پالیسی بنانے میں ناکام رہی۔ کب کیا کرنا ہے اور کس طرح کے فیصلے کرنے اور پلان بھی کیا ہو گا، اس بارے میں ان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں تھا۔

تجزیہ کار ضیغم خان نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کے جمہوری حقوق سے انکار کیا جا رہا ہے۔ جو کچھ ہوا ہے اور ہو رہا ہے اس سے جمہوریت اور جمہوری قدروں کو نقصان پہنچا ہے۔ ایک طرف ہماری سیاسی جماعتوں کو یہ معلوم نہیں کہ پرامن احتجاج کیا ہوتا ہے تو دوسری جانب حکومت کو بھی احتجاج ہینڈل کرنا نہیں آیا۔ تحریک انصاف کو بھی اس بات کا ادراک کرنا چاہیے تھا کہ موجودہ صورت حال میں کس طرح احتجاج کرنا ہے۔ کب کیا فیصلہ کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ یہ سب کچھ واضح کرنے کی ضرورت تھی جو نظر آ رہا ہے کہ نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان کی پالیسی کی ناکامی تھی۔‘

سیاسی امور کی ماہر ڈاکٹر آمنہ محمود کہتی ہیں کہ ’تحریک انصاف نے اس مرتبہ بہت سی سیاسی غلطیاں کی ہیں۔ ایک تو انہوں نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی۔ جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں کہہ دیا تھا کہ نہ آئیں اور حکومت کو ضروری اقدامات کی ہدایت دے دی تھی،  انہیں سمجھ جانا چاہیے تھا کہ اس وقت احتجاج سود مند نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ ورکرز کو بھی لسانی بنیادوں پر اکسایا جاتا رہا جو قومی سیاسی جماعت کے لیے مناسب رویہ نہیں ہے۔‘

جب ورکرز ڈی چوک پہنچے تو علی امین گنڈاپور ان سے دو اڑھائی کلومیٹر دور سیونتھ ایونیو کے آس پاس موجود رہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

احتجاجی مارچ کے روانہ ہونے س پہلے یہ اطلاعات بھی موصول ہوئیں کہ علی امین گنڈاپور بشریٰ بی بی کے مارچ میں جانے کے مخالف تھے اور اس پر دونوں کے درمیان تکرار بھی ہوئی اور بالآخر بشریٰ بی بی نہ صرف مارچ میں شامل ہوئیں بلکہ پورا راستہ اس کی قیادت بھی کرتی نظر آئیں۔

انہوں نے متعدد مقامات پر کارکنان سے خطاب کیا اور ان کا حوصلہ بڑھایا لیکن توقعات کے برعکس تحریک انصاف کی تمام تر امیدوں کا مرکز خیبرپختونخوا سے آنے والے قافلے ہی رہے جو صوابی کے مقام پر جمع ہوئے اور اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔

دو دن کی جدوجہد کے بعد جب قافلہ 26 نمبر چونگی پر پہنچا تو انہیں سنگجانی میں دھرنا دینے کے لیے جگہ کی فراہمی کی پیش کش کی گئی۔ بیرسٹر سیف کے مطابق ’عمران خان نے اس پیش کش کو قبول کر لیا لیکن بشریٰ بی بی نے اس سے انکار کرتے ہوئے ڈی چوک جانے کا اعلان کر دیا۔‘

ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ ’اگرچہ باقی جماعتوں میں تو موروثی سیاست پہلے سے ہی موجود ہے لیکن اب اس نے تحریک انصاف کا راستہ بھی دیکھ لیا ہے۔ پورے احتجاج میں وزیراعلیٰ تمام وقت بشریٰ بی بی کے حکم کے پابند نظر آئے۔ ان سمیت پارٹی کے کسی رہنما میں ہمت نہیں ہوئی کہ وہ بشریٰ بی بی کو بتائے کہ آپ کا سیاسی تجربہ نہیں ہے۔ اگر ہمیں کوئی سیاسی فائدہ اور موقع مل رہا ہے تو ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ لیکن بشریٰ بیگم نے عمران خان کے حکم کو بھی نظرانداز کیا۔ ورکرز بھی پرجوش تھے جو صرف ان کی بات مان رہے تھے۔ بالآخر اس کا نقصان یہ نکلا وہ احتجاج جو کامیاب ہو سکتا تھا وہ ختم ہو گیا۔‘

صرف یہی نہیں بلکہ دو دن سے تھکے ہارے اور غصے سے بھرے ورکرز جب اسلام آباد پہنچے تھے تو حکمت کا تقاضا تھا کہ جڑواں شہروں کے ورکرز باہر نکلتے اور ان کے ساتھ ہوتے اور مقامی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے احتجاج کو آگے بڑھاتے لیکن مقامی کارکن بھی نہیں نکلے جس سے صورت حال مزید خراب ہوئی۔خیبرپختونخوا سے آنے والے ورکرز 26 نمبر چونگی کے بعد پولیس کی جانب سے پیچھے ہٹ جانے اور مزاحمت ترک کر دینے کے عمل کو اپنی طاقت منوانے سے تعبیر کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے جو بالآخر ایک بڑی مشکل کی صورت میں سامنے آئی۔

اسلام آباد کے جناح ایونیو پر پہنچنے کے بعد جب ورکرز ڈی چوک پہنچے تو علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی ان سے دو اڑھائی کلومیٹر دور سیونتھ ایونیو کے آس پاس موجود رہے۔ جس کے باعث ایک تو ورکرز نے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی اور پارٹی قیادت میں سے کوئی انہیں روکنے اور کسی ایک جگہ بٹھانے والا موجود نہیں تھا۔ دوسری جانب جوں جوں شام ہوتی گئی تو جوشیلے ورکرز ان کے خلاف ہوتے گئے اور انہیں آگے بڑھنے کے لیے زور ڈالتے رہے۔

جوں جوں شام ہوتی گئی تو جوشیلے ورکرز قیادت پر آگے بڑھنے کے لیے زور ڈالتے رہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس حوالے سے  پی ٹی آئی کے کئی کارکنوں کی ویڈیوز بھی سامنے آئیں۔ جب ورکرز مار کھا کھا کر تھک گئے تو بھی کنٹینر آگے نہ بڑھا تو پھر ورکرز کی بڑی تعداد واپس جانا شروع ہو گئی جس سے سکیورٹی اداروں کو باقی ماندہ لوگوں کو منتشر کرنے میں آسانی ہوئی۔

اس حوالے سے ضیغم خان کا کہنا ہے کہ ’تحریک انصاف ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ اس وقت ایک مظلوم جماعت ہے اور وہ مزید کسی طاقت کے استعمال کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے ورکرز کو اکسایا، ان کو ڈنڈے اور باقی سازوسامان دیا۔ مرنے مارنے کی باتیں کیں۔ مار کٹائی اور گاڑیاں جلانے تک کے عمل کو سپورٹ کیا گیا۔ مظلومیت اور بدمعاشی ایک ساتھ نہیں چلتی۔ اس سے تحریک انصاف کی مشکلات بڑھیں گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس احتجاج کے دوران جب جب بھی تحریک انصاف کو کچھ حاصل کرنے کے مواقع ملے۔ سیاسی قیادت کے فقدان، باہمی روابط کی کمی، مرکزی قیادت کے منظر سے غائب ہونے اور قانونی پیچیدگیوں سے واقف وکلاء کی اس احتجاج سے عملی لاتعلقی کے باعث وہ ضائع ہوئے۔‘

ڈاکٹر آمنہ محمود نے کہا کہ ’اگرچہ یہ فائنل کال تھی اور تحریک انصاف کو ریاستی طاقت کا سامنا کرنا پڑا اور اس سے جہاں ان کو جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا وہیں مزید مقدمات بھی درج ہوں گے۔ جو تشخص اجاگر ہوا ہے اس سے جہاں عمران خان کا باہر آنا مزید مشکل ہوگیا ہے وہیں اقتدار میں قبول کرنے والی طاقتوں کے لیے مشکل ہو گیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو قبول کریں۔

Comments are closed.