حکومت اور اسٹبلشمنٹ پی ٹی آئی سے مذاکرات کیلئے کیوں مجبور ہوئی؟ بھارتی میڈیا کا بڑا دعویٰ
کیا حکومت پاکستان سابق وزیراعظم عمران خان کے بارے میں اپنا موقف نرم کر رہی ہے؟ کیا ان کی جلد رہائی ممکن ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو بھارتی میڈیا نے وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور جو اسلام آباد کے احتجاج میں ایک دوسرے کے مخالف کھڑے تھے، ان کے بغل گیر ہونے کی تصاویر سامنے آںے کے بعد اٹھائے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے ان تصاویر کو دو متحارب کیمپوں کے درمیان برف پگھلنے اور ہوا کے رُخ کی تبدیلی کے اشارے کے طور پر لیا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پیر کو مذاکرات کا پہلا دور خوشگوار انداز میں ہوا، بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ اقدام سیاسی قیدیوں بشمول عمران خان کی رہائی سمیت متعدد متنازع معاملات کو حل کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔
بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ نہ چلانے کا معاملہ میز پر ہے۔ اگرچہ کسی بھی فریق نے اپنے کارڈز شو نہیں کئے ہیں اور پی ٹی آئی سے بقاعدہ تحریری مطالبات مانگے گئے ہیں، تاہم، خیال یہی ہے کہ عمران کی رہائی سرفہرست مطالبات میں شامل ہے۔
گزشتہ روز ہوئی ملاقات کے پہلے دور کا مقصد حریف کیمپوں کے درمیان تناؤ کو کم کرنا تھا اور اگلا دور دو جنوری کو شیڈول کیا گیا ہے۔
بھارتی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ بات چیت کے آغاز سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’اسٹبلشمنٹ کی حمایت یافتہ حکمران جماعت‘ نے بالآخر پی ٹی آئی کے کچھ مطالبات مان لیے ہیں۔ تاہم، بڑھتا ہوا بین الاقوامی دباؤ اس طویل مدت سے التوا کے شکار مذاکرات کی وجہ ہے۔
اگرچہ ملکی عوامل، جیسے کہ جاری سیاسی عدم استحکام اور ایک مستحکم جمہوری عمل کی ضرورت نے اس مصالحتی اقدام کو آگے بڑھایا ہے، تاہم، بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے اٹھائی جانے والی آوازوں، بشمول انسانی حقوق کی تنظیموں نے عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ میں کردار ادا کیا ہے۔
ماضی قریب میں عمران خان کی رہائی کے لیے دنیا بھر سے بااثر لوگوں کے بیانات میں اضافہ ہوا ہے۔
نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی رچرڈ گرینیل سے لے کر برطانوی رکن پارلیمنٹ جارج گیلووے اور برطانیہ کے سابق اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن تک سبھی نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کالز نے پاکستان اور بیرون ملک عمران خان کے حامیوں کی خاصی توجہ مبذول حاصل کی ہے۔
پی ٹی آئی نے گزشتہ ہفتے اپنے آفیشل ”ایکس“ اکاؤنٹ سے کی گئی ٹوئٹ میں کہا کہ ’عمران خان کی رہائی کے لیے عالمی سطح پر زیادہ سے زیادہ آوازیں اٹھ رہی ہیں، جو کہ جھوٹے اور من گھڑت مقدمات میں من مانی اور سیاسی طور پر نظربند ہیں۔ دنیا بھر کی بااثر آوازیں کہہ رہی ہیں: عمران خان کو آزاد کرو!‘۔
اسکاٹ لینڈ کے سابق وزیر اعظم حمزہ یوسف نے گزشتہ ہفتے آکسفورڈ یونین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ عمران خان کی ”مسلسل قید“ سے بہت پریشان ہیں۔
سابق امریکی خصوصی نمائندے برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے 19 دسمبر کو عمران خان کی رہائی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’پاکستان میں تبدیلی کا وقت ہے‘۔
انہوں نے ایکس پر کی گئی اپنی ہوسٹ میں کہا کہ ’پاکستانی حکومت پابندیوں اور سفارتی دباؤ کی مستحق ہے کیونکہ اس نے پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے دردی سے استعمال کیا اور یہاں تک کہ ان کا قتل عام کیا، اور وہ عمران خان کو جیل میں رکھنے کے لیے سیاسی مقاصد کے لیے قانونی نظام کا غلط استعمال کر رہی ہے‘۔
خلیل زاد، جو عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران پاکستان کے ساتھ قریبی تعلق کے لیے جانے جاتے ہیں، انہوں نے نومبر میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر زور دیا تھا کہ وہ امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے تناظر میں عمران خان کی حراست کی وضاحت کرے۔
مزید برآں، عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ کی اکتوبر میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے پرجوش درخواست کے بعد، برطانیہ اور امریکہ میں کئی سرکردہ شخصیات نے ان کی رہائی کے لیے آواز اٹھائی۔ ان میں برطانوی بزنس میگنیٹ رچرڈ برانسن، مخیر جیفری اسکول اور امریکی وبائی امراض کے ماہر لارنس بریلینٹ شامل تھے۔
ستمبر میں، کم از کم 60 امریکی قانون سازوں نے صدر جو بائیڈن سے مطالبہ کیا کہ وہ سابق وزیراعظم عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالیں۔ اس اقدام پر اسلام آباد نے شدید تنقید کرتے ہوئے اسے بیرونی مداخلت کے طور پر دیکھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے خط میں قانون سازوں نے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔
عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرنے والی آوازیں کثیرالجہتی تنظیموں اور حقوق کی تنظیموں جیسے اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ آن آربیٹریری ڈیٹینشن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اٹھائی ہیں۔
جولائی میں شائع ہونے والی ایک رائے میں ورکنگ گروپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ عمران خان کی حراست بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گروپ نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی گرفتاری کی ’کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے‘۔
ایمنسٹی نے ستمبر میں پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا کہ ’عمران خان کو صوابدیدی پری ٹرائل حراست سے فوری رہا کیا جائے‘۔
عمران خان جو اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، انہیں ابتدائی طور پر مئی 2023 میں اس الزام میں گرفتار کیا گیا تھا کہ انہوں نے اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے 2018 میں اپنے عہدے کے دوران رشوت کے طور پر تقریباً 25 ملین امریکی ڈالر کی زمین حاصل کی۔
عمران خان کو تین دن کی حراست کے بعد ضمانت مل گئی، لیکن اس دوران ان کے حامیوں نے پرتشدد مظاہرے کیے، فوج اور ریاستی تنصیبات کو آگ لگائی، اس کدوران آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔
عمران خان کو اب انسداد دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے جو مئی میں ان کی گرفتاری کے بعد بدامنی سے منسلک ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق جہاں عمران خان کی پارٹی ”پی ٹی آئی“ ان کی رہائی کے مطالبے پر ثابت قدم ہے، وہیں حکومت نے اس پر عمل کرنے کا اشارہ بہت مبہم انداز میں دیا ہے۔
بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ اندرونی اور عالمی دونوں طرح کا دباؤ ہے جس نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو مذاکرات کی میز پر بٹھا کر دیگر چیزوں کے علاوہ عمران خان کی جیل سے رہائی پر بات کرنے پر مجبور کیا ہے۔