گاؤں والوں نے ارشد ندیم کی اولمپکس تک پہنچنے میں کیسے مدد کی؟
پیرس اولمپکس میں ریکارڈ ساز کارکردگی سے پاکستان کو 40 سال بعد گولڈ میڈل جتوانے والے ارشد ندیم اپنے گاؤں والوں کی امیدوں پر کھرا اترے۔
ارشد ندیم 2 جنوری 1997ء کو پنجاب کے گاؤں میاں چنوں میں پیدا ہوئے، آٹھ بہن بھائیوں میں ارشد ندیم کا تیسرا نمبر ہے۔ ان کے والد محمد اشرف ایک مزدور تھے اور پوری فیملی کے واحد کفیل تھے اس لیے ان کی معاشی حالت زیادہ مضبوط نہیں تھی۔
اس لیے جب اُنہوں نے ایتھلیٹ بننے کا فیصلہ کیا تو ان کے پاس ٹریننگ کے اخراجات پورے کرنے اور بیرون ممالک میں ہونے والے مقابلوں میں حصّہ لینے کے لیے سفر کرنے کے پیسے نہیں تھے۔
اس حوالے سے ارشد ندیم کے والد محمد اشرف نے انکشاف کیا کہ ارشد ندیم کو ابتدائی دنوں میں ٹریننگ اور بیرون ملک سفر کرنے کے لیے گاؤں والوں اور رشتہ داروں نے پیسے دیے۔
یاد رہے کہ رواں سال جب ارشد ندیم نے ٹریننگ کے لیے نئی جیولین خریدنے کے لیے مدد کی اپیل کی تھی تو نیرج چوپڑا نے بھی ان کے لیے سوشل میڈیا پر اپنی آواز اُٹھائی تھی۔
ارشد ندیم کو صحت کے حوالے سے بھی کچھ مسائل کا سامنا رہا ہے اور گزشتہ سال اُنہیں اپنے گھٹنے کی سرجری بھی کروانی پڑی۔
تاہم، صحت اور دیگر ممالک کے ایتھلیٹس جیسی اعلیٰ ترین سہولتوں اور سازوسامان کی عدم دستیابی کے باوجود بھی وہ قوم کی کرکٹ سے ایتھلیٹکس کی طرف کچھ توجہ مرکوز کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔